فرقۂ اباضیہ: ایک تاریخی، اعتقادی اور فقہی جائزہ

فرقۂ اباضیہ: ایک تاریخی، اعتقادی اور فقہی جائزہ

فرقۂ اباضیہ: ایک تاریخی، اعتقادی اور فقہی جائزہ مع اسلامی حکم

فرقۂ اباضیہ: ایک تاریخی، اعتقادی اور فقہی جائزہ

 

از قلم نور حسن بلگرامی

 

 

اسلامی تاریخ میں مختلف فکری اور اعتقادی مکاتبِ فکر کی تشکیل مختلف سیاسی اور نظریاتی اسباب کے تحت ہوئی۔ ان میں سے ایک فرقہ "اباضيہ” ہے، جو اپنے بانی عبداللہ بن اباض کے نام سے منسوب ہے۔ اس کا ظہور اموی دور میں ہوا اور اس کے پیروکاروں نے ایک منفرد اعتقادی اور فقہی نظام اپنایا، جو انہیں دیگر اسلامی مکاتبِ فکر سے ممتاز کرتا ہے۔ تاہم، ان کے متعدد عقائد اہل سنت والجماعت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں، جس کے سبب اہل سنت کے علماء نے انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا ہے۔

اس مضمون میں اباضيہ کے بنیادی عقائد، فقہی نظریات، تاریخی پسِ منظر، ان کی موجودہ حیثیت، اور اسلام کے نقطہ نظر سے ان کے بارے میں شرعی حکم پر تفصیلی روشنی ڈالی جاۓ گی۔

 

 تاریخی پسِ منظر

اباضيہ کی بنیاد عبداللہ بن اباض نے رکھی، جو اموی خلیفہ مروان بن محمد کے دور میں نمایاں ہوئے۔ ان کے خروج کے بعد اموی حکمرانوں نے ان کے خلاف لشکر بھیجا، جس کے نتیجے میں ان کی تحریک کو عسکری مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا ایک مشہور ساتھی عبداللہ بن یحییٰ الإباضی تھا، جو ان کے نظریات میں برابر کا شریک تھا۔

ابتدائی طور پر اباضيہ کا دائرہ کار جزیرہ نما عرب اور عراق میں محدود تھا، لیکن بعد میں اس نے شمالی افریقہ، عمان اور دیگر علاقوں میں قدم جمانا شروع کر دیا۔ ان کے پیروکاروں نے اسلامی معاشرت میں الگ تشخص قائم کیا اور اپنے اصول و ضوابط کے مطابق ایک مضبوط فکری اور اعتقادی بنیاد رکھی۔

 

 عقائد و نظریات

اباضيہ کا ایک اپنا الگ اعتقادی نظام ہے جو کئی اہم نکات پر مبنی ہے، جن میں بعض نظریات خوارج سے مشابہت رکھتے ہیں۔

 کفر کی تقسیم

اباضيہ کے نزدیک ان کے مخالفین (اہل السنہ، اور دیگر منسوب اسلامی فرقے) "کفار غیر مشرکین” ہیں، یعنی وہ انہیں کافر تو مانتے ہیں لیکن مشرک نہیں۔

ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب مؤمن نہیں رہتا، بلکہ وہ کافر نعمت ہو جاتا ہے، اگرچہ کافر ملت نہیں ہوتا۔

یہ نظریہ اہل سنت والجماعت کے اس اصول سے متصادم ہے، جس کے مطابق کبیرہ گناہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، کافر نہیں۔

 

 غنیمت اور قتال کے اصول

وہ دشمن کے اموال میں سے صرف ہتھیار اور گھوڑے بطور غنیمت لینے کو جائز سمجھتے ہیں، لیکن دیگر اشیاء کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔

وہ مخالفین کے قتل کو صرف کھلی جنگ میں جائز سمجھتے ہیں اور گھات لگا کر قتل کرنے کو ناجائز کہتے ہیں، جب تک کہ جنگ کا اعلان نہ ہو جائے۔

 

 دار الاسلام اور دار البغی

ان کے نزدیک تمام اسلامی علاقے "دار التوحید” کہلاتے ہیں، سوائے ان مقامات کے جہاں سلطان کی فوج کا اثر و رسوخ ہو، کیونکہ وہ "دار البغی” کہلاتے ہیں۔

 

 مرتکبِ کبیرہ کا درجہ

ان کے مطابق جو شخص کبیرہ گناہ کرتا ہے، وہ موحد تو رہتا ہے لیکن مؤمن نہیں کہلا سکتا۔

یہ عقیدہ بھی اہل سنت والجماعت کے عقیدہ "فسق بلا کفر” کے خلاف ہے۔

 

 شہادت اور عدالتی معاملات

اباضيہ اپنے مخالفین کی اپنے پیروکاروں کے حق میں گواہی قبول کرتے ہیں۔

 

 استطاعت اور کسب

ان کے مطابق استطاعت ایک غیر مستقل صفت (عرض) ہے، جو فعل کے انجام پانے سے پہلے آتی ہے، اور اسی کی بنیاد پر فعل وقوع پذیر ہوتا ہے۔

ان کے نزدیک تمام افعال اللہ کی تخلیق کردہ ہیں، لیکن بندہ انہیں حقیقت میں کسب کرتا ہے۔

 

 رسالت اور معجزات

بعض اباضی نظریہ رکھتے ہیں کہ اللہ کسی بھی رسول کو بغیر کسی دلیل اور معجزے کے بھیج سکتا ہے، اور یہ کہ رسول پر معجزہ ظاہر کرنا لازم نہیں، جب تک اللہ خود کوئی نشانی نہ پیدا کرے۔

 

 فقہ اباضیہ

اس فرقے کا بھی اپنا فقہ اور اصول فقہ موجود ہے۔

 

 سیاسی قیادت :

وہ اپنے امام کو "امیر المؤمنین” نہیں کہتے اور خود کو "مہاجرین” کا لقب نہیں دیتے۔

 

 عالم کے فنا ہونے کا نظریہ :

ان کے مطابق جب مکلف افراد فنا ہو جائیں گے تو پورا عالم بھی فنا ہو جائے گا۔

 

 منافقین کے بارے میں تصور :

ان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے منافقین موحد تو تھے، لیکن چونکہ وہ کبیرہ گناہوں میں ملوث تھے، اس لیے وہ کفر کے درجے میں آ گئے، مگر شرک کے باعث نہیں بلکہ کبیرہ کے سبب۔

 

 مسح علی الخفین:

یہ مسح علی الخفین کے عدم جواز کے قائل ہیں، جو اہل سنت کے اجماعی مسئلے کے متصادم ہے۔

 

 احکام کی تعمیم:

ان کے عقیدے کے مطابق قرآن میں کوئی بھی حکم مخصوص نہیں بلکہ عام ہے، یعنی ہر حکم کا اطلاق مومن اور کافر دونوں پر ہوتا ہے۔

 

 اباضیہ کی مختلف شاخ

وقت کے ساتھ ساتھ إباضية مختلف ذیلی گروہوں میں تقسیم ہو گئے، جیسے کہ:

ثعالبہ

عجاردہ

یہ تقسیمات فقہی اور اعتقادی اختلافات کی بنا پر ہوئیں، لیکن مجموعی طور پر ان کے بنیادی عقائد میں کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا۔

 

 موجودہ دور میں اباضيہ

آج بھی اباضيہ کے پیروکار دنیا کے مختلف خطوں میں موجود ہیں، سب سے زیادہ سلطنتِ عمان میں، جہاں یہ سرکاری فقہی مکتب ہے۔

ان کے علمی ورثے میں کئی کتب شامل ہیں، جیسے:

المصنف (فقہی مجموعہ)

کتاب النیل و شفاء العلیل

الدلیل والبرہان فی عقائد الإباضیة

إباضيہ کے بارے میں اسلامی حکم

اہل سنت والجماعت کے علماء نے متفقہ طور پر إباضية کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے عقائد معتزلہ، خوارج اور باطنیہ سے ملتے جلتے ہیں۔

ان کے عقائد خصوصاً ایمان و کفر کی درجہ بندی، مرتکب کبیرہ کے بارے میں سخت موقف، اور اسلامی خلافت کے اصولوں سے انحراف، انہیں اہل سنت والجماعت کے بنیادی اصولوں سے الگ کرتا ہے۔

ابن تیمیہ رح نے بھی ان کے نظریات کو خوارج کے عقائد سے قریب تر قرار دیا ہے اور ان کے کئی مسائل پر تفصیلی رد کیا ہے۔

 

 الحاصل

اباضيہ ایک منفرد اسلامی فرقہ ہے، جس کا آغاز اموی دور میں ہوا اور آج تک اس کے پیروکار موجود ہیں۔ ان کے عقائد اور فقہی نظریات دیگر اسلامی مکاتبِ فکر سے کسی حد تک مختلف ہیں اور ان کے بعض عقائد اہل سنت والجماعت کے اصولوں سے متصادم ہیں، خصوصاً ان کا مرتکبِ کبیرہ کے بارے میں سخت موقف، دار الاسلام و دار البغی کا تصور، اور بعض دیگر اعتقادی و فقہی مسائل، جن کی وجہ سے انہیں اہل سنت والجماعت سے خارج سمجھا جاتا ہے۔

لہذا، اہل اسلام کو ان کے عقائد و نظریات کو جاننے کے بعد احتیاط برتنی چاہیے اور کتاب و سنت کے مطابق صحیح اسلامی عقائد کو اپنانا چاہیے۔

(یہ مضمون ” الملل والنحل”

مؤلفہ: علامہ الشهرستاني متوفی 548 هـ ،

"الفصل في الملل والأهواء والنحل ”

مؤلفہ: بن حزم الظاهري متوفی 456 هـ،

اور فرقہٴ اباضیہ اپنے عقائد وافکار کے آئینے میں (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند، 19 مئ, 2022) از: مولانا اشرف عباس قاسمی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند،    سے ماخوذ ہے۔)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے