شادی کی پہلی رات کیا کرنا چاہیے؟
شادی ایک پاکیزہ بندھن اور انتہائی تقدس کا حامل رشتہ ہے، جو دو اجنبی کو محبت و الفت کی ڈور سے باندھتا ہے، یہ محض ایک معاشرتی یا قانونی بندھن نہیں ہوتا؛ بلکہ اس رشتے کی تعمیر روحانی اور فطری بنیادوں پر ہوتی ہے، یہ محض جسم و جاں کے ظاہری تعلق کا نام نہیں ہے؛ بلکہ احساسات و خیالات، خوابوں اور ارادوں کی ہم روی اور ہم آہنگی کا عنوان بھی ہے۔
شادی کی پہلی رات اس مقدس رشتے کا پہلا باب ہوتا ہے، جو زوجین کی زندگی کا انتہائی حسین، نشاط انگیز اور کیف آور لمحہ ہوتا ہے، اس شب کی تلخی و شیرینی سے مستقبل کی راہوں کا تعین ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ زوجین اس رات کو یادگار اور حسین بنائے؛ تاکہ سدا خانۂ دل میں اس رات کا لطف اور شیرینی محفوظ رہے۔
شادی کی پہلی رات کیا کرنا چاہیے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے متعلق ہر کوئی شادی سے پہلے ضرور سوچتا ہے؛ بلکہ اس رات کے لیے اپنی آنکھوں میں مختلف خواب سجاتا ہے، بہت سی تمناؤں اور آرزوؤں کو سینے سے لگا کر اس رات کا انتظار کرتا ہے۔
خیر تمہید کی طولانی سے گریز کرتے ہوئے اصل مدعا کی طرف آتے ہیں کہ شادی کی پہلی رات کیا کرنا چاہیے؟ اس کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے اس غلط تصور کی بیخ کنی ضروری ہے جو عام طور پر نوجوانوں کے ذہن میں راسخ ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رات جنسی خواہش کی تکمیل کی رات ہے، اور اس رات میں میاں بیوی کا آپس میں جسمانی تعلق قائم کرنا ضروری ہے۔ یہ انتہائی غلط تصور ہے جو اخلاقی اور نفسیاتی طور پر بہتر رویہ نہیں ہے۔
ایک نصیحت
بہت سے نوجوان غلط ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں اور صحیح و غلط، معتبر و غیر معتبر باتوں کا لحاظ کیے بغیر انھیں عملی جامہ پہنا کر اپنی اس حسین رات کو خراب کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ صحیح اور اسلامی شریعت کی روشنی میں معلومات حاصل کیے جائیں کہ اسی میں ہمارے لیے خیر اور برکت ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ دولہا مرد ہوتا ہے، اس لیے فطرتا اس کے اندر عقلمندی اور سمجھداری کا عنصر موجود ہوتا ہے، اس کا شعور بھی بلند ہوتا ہے، انھیں اول تو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جو لڑکی اس کے عقد میں آئی ہے وہ ایک مکمل انسان ہے اور اپنے اندر احساسات و جذبات اور شعور رکھتی ہے، اور اس نکاح جیسے پاکیزہ عقد کے ذریعے انھیں اس کا ذمہ دار اور محافظ بنایا گیا ہے، وہ صرف اس کے جسم و جاں کا ہی نہیں؛ بلکہ اس کے جذبات و احساسات کا بھی محافظ ہے۔ ایک باپ جب کسی کو اپنی بیٹی دیتا ہے تو اس امید کے ساتھ دیتا ہے کہ جس طرح میں نے اب تک اس کی ضروریات اور احساسات کا خیال رکھا ہے، اسی طرح شوہر بھی ان چیزوں کا خیال رکھےگا؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی لاڈلی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے رہے تھے تو آپ نے ان سے حسن معاشرت اور حسن صحبت کی شرط لگائی تھی۔ (رواہ الطبرانی)
اسے بھی پڑھیں: کیا ولیمہ کے لیے مباشرت ضروری ہے؟
ہم شرعی اور نفسیاتی نقطۂ نظر سے چند مشورے پیش کرتے ہیں، جن کا اگر لحاظ کیا جائے تو ان شاءاللہ یہ رات انتہائی حسین و یادگار اور مستقبل کی خوشیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
شادی کی پہلی رات: شرعی رہنمائی
1. صفائی ستھرائی کا اہتمام
شادی کی پہلی رات سے قبل زوجین کو پاکی، صفائی اور نظافت کا پورا خیال رکھنا چاہیے، جسم سے غیر ضروری بال صاف کرے، عمدہ لباس زیب تن کرے، خوشبو لگائے اور چہرے پر حسین مسکراہٹ سجائے۔
2. دعائے مسنون کا اہتمام
شوہر جب حجلۂ عروسی میں داخل ہو تو دروازہ بند کر لے، پھر جب میاں بیوی دونوں کو تنہائی حاصل ہو جائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کی پیشانی پر ہاتھ رکھے اور درج ذیل دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ. (رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس کی جبلت و طبیعت کی بھلائی طلب کرتا ہوں، اور اس کے شر اور اس کی فطرت و طبیعت کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
3. بیوی کو کھانے کی چیز پیش کرے
پھر شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ نرمی و ملاطفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کھانے کی چیز پیش کرے، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب زفاف کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دودھ کا پیالہ پیش فرمایا تھا، پہلے آپ نے نوش فرمایا پھر اماں عائشہ کو دیا تھا۔ (مسند حمیدی)
4. بیوی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے
اس کے بعد شوہر کو چاہیے کہ کہ وہ اپنی اقتدا میں بیوی کو دو رکعت نماز پڑھائے، اور نماز کے بعد اپنے لیے دین و دنیا کی بھلائی اور الفت و محبت کی دعا کرے۔ بعض صحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہے، اس سے میاں بیوی کے درمیان الفت و محبت پیدا ہوگی اور روحانی تعلق قائم ہوگا۔
5. مباشرت اور اظہار شفقت و محبت
اس کے بعد شوہر کو چاہیے کہ بیوی سے پیار و محبت کی باتیں کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا مظاہرہ فرمایا ہے۔ بیوی کو فورا مباشرت پر اصرار نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ کچھ لمحے آپسی گفتگو، وقت گزاری اور دل لگی میں صرف کیا جائے، اگر بیوی خوش دلی کے ساتھ مباشرت کے لیے راضی ہو جائے تو شرعی طریقے پر مباشرت کا عمل انجام دیا جائے، اور مباشرت سے پہلے درج ذیل دعا ضرور پڑھ لینی چاہیے:
بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا. (رواہ البخاری)
ترجمہ: اللہ کے نام سے میں اس کام کا آغاز کرتا ہوں، اے اللہ تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو اولاد تو ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔
شادی کی پہلی رات: نفسیاتی رہنمائی
1. حجلۂ عروسی کو سجانا
شادی کی پہلی رات انتہائی خوشی کا موقع ہوتا ہے؛ لہذا اس موقع پر اگر حجلۂ عروسی کو تھوڑا سجا دیا جائے تو ایک خوشگوار ماحول کی تخلیق ہو سکتی ہے، جس سے میاں بیوی کو اس دن کی اہمیت کا احساس ہوگا، اور ایک عمدہ ماحول میں اس خوبصورت رشتے کی ابتدا ہوگی۔ لہذا چاہیے کہ کمرہ بالکل صاف رکھا جائے، خوشبو اور نرم بستروں سے آراستہ ہو، گلدستوں اور نرم رنگوں سے مزین ہو اور روشنی کا معقول انتظام ہو۔
2. تعارف و گفتگو اور تحفہ دینا
یہ رات دلہن کے لیے بہت اہم اور جذباتی ہوتی ہے، اجنبیت، گھبراہٹ اور توقعات کے بوجھ سے اس کا دل خوفزدہ ہو سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے شوہر اسے آرام دہ محسوس کرائے، باہمی تعارف، ایک دوسرے کی تعریف، حوصلہ افزائی اور دعائیں دیکر اپنی بات کا آغاز کرے، کیوں کہ بیوی کے ذہن پر شوہر کے رویوں کا جو پہلا تاثر پڑےگا تاعمر اسی زاویے سے وہ شوہر کو دیکھے گی؛ لہذا خیال رہے کہ شوہر کا پہلا تاثر اچھا ہو، یہاں پر یہ چیز انتہائی کارگر ثابت ہوگی کہ شوہر بیوی کو کوئی اچھا سا تحفہ پیش کرے، تحفے تحائف دلوں میں محبت کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔
3. احساس تحفظ دینا
پھر اپنی گفتگو اور اپنے رویوں سے دلہن کو اس بات کا احساس دلانا کہ وہ ایک محفوظ ماحول میں ہے، آپ اس کے محافظ اور نگران ہیں، اور اس کے جذبات و احساسات کا پورا خیال رکھیں گے، نرمی، مسکراہٹ اور خوشدلی کے ساتھ اس سے گفتگو کرے، ذہنی طور پر ایک دوسرے سے قریب ہوں کہ جسمانی قربت سے پہلے ذہنی قربت ضروری ہے۔
4. مباشرت کے لیے بیوی کی رضا کا خیال
شادی کے بعد اگر چہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حلال ہو گئے ہیں؛ تاہم شادی کی پہلی رات کو محض جنسی تعلق کی رات سمجھنا صحیح نہیں ہے، جنسی تعلق کے حوالے سے بنیادی معلومات نہ رکھنے والے افراد اپنی شریک حیات کے جذبات کی پروا کیے بغیر محض اپنی خواہش کی تکمیل کے واسطے بیوی کی ناخوشی کے باوجود مباشرت کر لیتے ہیں، یہ عمل اگر چہ جائز ہے؛ تاہم نفسیاتی طور پر یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے شوہر کو خیال رکھنا چاہیے کہ بیوی ذہنی طور پر اس کام کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ اگر وہ شرم یا گھبراہٹ محسوس کرتی ہے، تو اسے وقت دیا جائے، بےصبری اور جلد بازی کا مظاہرہ کرنا کوئی دانش مندانہ رویہ نہیں ہے۔
شادی کی پہلی رات کو کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے چند مشورے نوجوانوں کی رہنمائی کے پیش نظر ہم نے قلم بند کر دیے ہیں، یہ تحریر انتہائی مختصر ہے، بہتر ہے کہ نوجوان شادی سے پہلے ہی ان چیزوں سے متعلق شرعی و نفسیاتی معلومات حاصل کر لے، تاکہ وہ شادی کے بعد شرعی اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی کا آغاز کر سکے، اور نفسیاتی نزاکتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنے باہمی تعلقات کو مستحکم اور پائیدار بنا سکے۔
Leave a Reply