توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟

از: عبدالعلیم دیوگھری

اللہ کی رحمت بےپایاں

اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، عزت، ذلت، زندگی، موت، کامیابی، ناکامی سب اسی کے دستِ قدرت میں ہے۔ لامحدود قوتوں اور بےکراں تصرفات کا مالک ہونے کے باوجود وہ حضرت انسان پر اس قدر عطوف و مہربان ہے کہ وہ اس کو اس کے گناہ کی فورا سزا نہیں دیتا؛ بلکہ وہ اسے مہلت عطا کرتا ہے کہ کبھی تو اس کے دل میں اپنے خالق کی طرف بازروی کی تحریک پیدا ہوگی اور اس کے لمحے کی ندامت کے بدلے اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اصلاح اور واپسی کا موقع عنایت فرمایا ہے وہ جب چاہے سچے دل سے اپنی خطا پر نادم ہوکر توبہ تائب کرکے گناہوں کی آلودگی کو رحمت الٰہی کے ماء زلال سے دھو سکتا ہے، توبہ کا دروازہ ہر آن اس کے لیے کھلا ہوا ہے؛ مگر موقع بہرحال موقع ہوتا ہے، انسان اگر غفلت و لاپروائی کے نتیجے میں یہ موقع گنوا دے تو یہ اس کی بدترین بدبختی اور حرماں نصیبی ہے۔

 

قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، وہ اپنے فضل سے ہر گناہ کر معاف کر سکتا ہے؛ بشرطیکہ سچے دل کے ساتھ توبہ کی جائے؛ مگر دو حالات ایسے ہیں کہ ان میں توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور انسان کے پاس سوائے کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ہے۔

 

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟

توبہ کا دروازہ کب بند ہوگا؟ اس سوال کا جواب ہمیں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روشنی میں مل جاتا ہے۔

توبہ کا دروازہ دو مرحلوں میں بند ہوتا ہے، ایک تو فرد واحد کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوتا ہے اور دوسرا مجموعی طور پر انسانیت کے لیے ہی توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

 

پہلا مرحلہ:

فرد کے لیے توبہ کا دروازہ اس وقت بند ہوتا ہے جب وہ مرنے کے قریب ہوتا ہے اور موت کی سختی اس پر شروع ہو جاتی ہے، یعنی غرغرہ کی حالت۔

جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

إن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر. (ترمذی شریف حدیث نمبر 3537)

 

ترجمہ: اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس کی روح اس کے حلق میں نہ پہنچ جائے۔ (یعنی موت کا وقت آ جائے)

 

مذکورہ بالا حدیث درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر کرتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

وَلَيۡسَتِ التَّوۡبَةُ لِلَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السَّيِّاٰتِ‌ ۚ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّىۡ تُبۡتُ الۡــئٰنَ وَلَا الَّذِيۡنَ يَمُوۡتُوۡنَ وَهُمۡ كُفَّارٌ ‌ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا. (سورۃ النساء آیت نمبر 18)

 

ترجمہ: اور ایسوں کی توبہ نہیں ہے جو کیے جاتے ہیں برے کام، یہاں تک کہ جب سامنے آ جاوے ان میں سے کسی کے موت، تو کہنے لگا: میں توبہ کرتا ہوں اب۔ اور نہ ایسوں کی توبہ جو کہ مرتے ہیں حالت کفر میں، ان کے لیے تو تیار کیا ہے ہم نے دردناک عذاب۔ (ترجمہ از معارف القرآن)

 

 

درج بالا آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ پوری زندگی انتہائی جرات و بےخوفی کے ساتھ معصیت میں مبتلا رہتے ہیں اور پھر جب بستر مرگ پر دراز ہوتے ہیں، فرشتوں کا ورود ہونے لگتا ہے اور دوسرے عالم کے مناظر نگاہوں پر چھانے لگتے ہیں تو توبہ کرنے لگتے ہیں، ایسوں کی توبہ اللہ کے حضور قابل اعتنا نہیں سمجھی جاتی ہے اور انھیں شرف قبولیت نہیں حاصل ہوتی ہے؛ کیوں کہ اب ان کی فرصت عمر تمام ہو چکی ہے اور انھوں نے زندگی کے بیش قیمتی لمحات کو ضائع کرکے توبہ کا حق گنوا دیا ہے۔

چناں چہ فرعون اور آل فرعون جب دریا میں غرقاب ہونے تو اس وقت انھوں نے توبہ اور ایمان قبول کرنا کرنا چاہا؛ مگر ان کی کوشش بےسود رہی، بالآخر غرق ہوکر ہلاک ہوئے۔

 

دوسرا مرحلہ:

توبہ کا دروازہ بند ہونے کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو انسانوں کی توبہ اور ان کا ایمان لانا مقبول نہیں ہوگا؛ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

لا تَقُومُ السَّاعَةُ حتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِها، فإذا طَلَعَتْ ورَآها النَّاسُ آمَنُوا أجْمَعُونَ، وذلكَ حِينَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إيمانُها. (صحیح البخاری حدیث نمبر 4636)

 

ترجمہ: قیامت اس وقت تک نہیں آئےگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوگا، پھر جب وہ طلوع ہوگا اور لوگ دیکھیں گے تو سبھی ایمان لے آئیں گے، لیکن اس وقت ان کا ایمان انھیں نفع نہیں دےگا۔ (یعنی قبول نہیں کیا جائے گا)

 

اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"لا تنقطع الهجرة حتى تنقطع التوبة ثلاثا ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها. (سنن دارمی حدیث نمبر 2548)

ترجمہ: ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک توبہ منقطع نہ ہو جائے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور توبہ اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔

سورج مغرب سے طلوع ہونے پر توبہ کا دروازہ اس لیے بند ہو جائےگا کہ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت کی علامات کبری میں سے ہے، اور جب یہ علامت ظاہر ہو جائے گی تو لوگوں کو اسلام کے برحق ہونے اور آخرت کے یقینی ہونے کا یقین ہو جائےگا، پھر انسانوں کے لیے ایمان کے سلسلے میں آزمائش باقی نہیں رہےگی، نیز یہ مرحلہ حالت غرغرہ کی طرح ہے کہ اب انسانوں کی روح گویا ان کے حلق تک آ پہنچی ہے۔

ان ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ دو حالات میں بند ہوگا:

  1. ایک تو اس وقت جب انسان مرنے لگ جائے،
  2. اور دوسری حالت اس وقت جب سورج مغرب سے نکل آئے، یعنی قیامت انتہائی قریب ہو جائے۔

 

اب ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کتنی حیرت انگیز اور افسوس کی بات ہوگی کہ توبہ کا دروازہ تا دم مرگ کھلا رہنے اور رحمت الٰہی کے بار بار بلانے پر بھی ہم غفلت و بدمستی میں غرق رہیں اور یکایک اجل کا فرشتہ ہمارے پاس وارد ہو جائے اور ہم گناہوں کا پشتارہ لادے اپنے مولا کو اپنی رو سیاہی دکھانے کے لیے چل پڑیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سچی پکی توبہ کی توفیق مرحمت فرمائے۔

 

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے