علمی چوری: ایک لمحۂ فکر
از قلم نور حسن قاسمی بلگرامی
علم، عقل کی روشنی اور روح کی غذا ہے۔ یہ دنیا و آخرت کی بھلائی کا سرچشمہ، اور انسانیت کی فکری معراج کا ذریعہ ہے۔ مگر علم کے اس مقدس سفر میں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ امانت، دیانت، اور نسبت کی درستگی ہے۔
جب کوئی مصنف مؤلف کسی علمی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے، تو وہ صرف عبارتیں نہیں لکھتا بلکہ وہ شب و روز کی فکر، قیمتی وقت، خالص ارادے، مسلسل مطالعے، اور بار بار غور و فکر کے بعد ایک ایک جملہ تیار کرتا ہے۔ یہ محض الفاظ نہیں ہوتے، یہ عرق ریزی اور قربانیوں کا نچوڑ ہوتے ہیں۔
مؤلف کی محنت
کسی بھی کتاب کی تیاری میں مصنفین برسوں محنت کرتے ہیں۔ وہ ہر استدلال کو پرکھتے ہیں، ہر دلیل کو تولتے ہیں، اور ایک ایک نکتے اور بہترین استدلال تک رسائی کے لیے علمی و فکری دریا عبور کرتے ہیں۔
یہ کام کسی عام آدمی کے بس کا نہیں ہوتا۔ یہ ماہ و سال کا سفر ہوتا ہے۔ وہ بار بار تحقیق کرتے ہیں، بار بار عبارتوں کو بدلتے ہیں تاکہ بات خالص ہو، واضح ہو، مؤثر ہو۔
اس کے بعد وہ کتاب کمپیوٹر پر ٹائپ ہوتی ہے، پروف ریڈنگ، سیٹنگ، طباعت، کاغذ کی خریداری، جلدسازی جیسے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ سب مراحل صرف قلم کی مشقت نہیں، بلکہ مالی اور جسمانی مشقت بھی مانگتے ہیں۔ پھر جب وہ کتاب منظرِ عام پر آتی ہے، تو اس کے پسِ پشت ایک علمی مشن ہوتا ہے یعنی امت کو علم نافع پہنچانا اور اگلی نسلوں کو علمی ورثہ منتقل کرنا پیش نظر رہتا ہے۔
نسبت کی درستگی اور علامہ سیوطی کا مؤقف
اسی مسئلے کی وضاحت میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب تالیف فرمائی، جس کا نام "الفارق بین المصنف والسارق”ہے
(یعنی: مصنف اور چور کے درمیان فرق)
اس کتاب میں امام سیوطی نے ان لوگوں کی تردید کی جو دوسروں کی محنت کو اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ:
"علم کسی کی ذاتی ملکیت نہیں، مگر علمی کاوش کسی کی ذاتی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، اس لیے علمی مواد کو اس کے مصنف اور اس حقیقت تک پہنچنے والی شخصیت کی طرف منسوب کرنا ہی دیانت ہے۔”
سلف صالحین کا طریقہ
یقیناً ہمارے سلف صالحین علمی امانت میں بے مثال تھے۔ وہ کسی علمی نکتے کو بغیر نسبت کے بیان کرنا خیانت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اصل دیانت یہی تھی کہ قول کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے۔ لہٰذا، جس طرح کسی شخص کے مال پر قبضہ کرنا چوری ہے، اسی طرح کسی مؤلف کی محنت کو اپنے نام سے بیان کرنا بھی علمی چوری ہے۔ اس سے نہ صرف فرد کا حق مارا جاتا ہے بلکہ علمی معاشرے میں دیانت اور اعتبار کی بنیاد بھی کمزور ہو جاتی ہے۔
وقت کی ضرورت
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ان مصنفین، ناشرین اور اداروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی، ان کی معاونت کی جاتی تاکہ وہ مزید گراں قدر علمی کاموں کی طرف راغب ہوں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض افراد ان کی اجازت کے بغیر ان کی کتابوں کی پی ڈی ایف تیار کر کے یا تقسیم کر کے ان کی محنت اور دیانت کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔ یہ عمل صرف مالی بددیانتی نہیں، بلکہ ایک علمی خیانت بھی ہے، کیوں کہ ادارے نے گراں قدر صرفہ کتاب کی نشرو اشاعت میں صرف کیا ہے، اگر وہ نکلے گا نہیں، تو اگلی کتاب کو منظر عام پر لانے کے لیۓ مالی وسائل کا انتظام کیسے ہوگا؟
اگر اس طرح ہوتا رہا، تو نئی نسل تک معتبر علمی ورثہ کیسے منتقل ہوگا۔ جبکہ انٹرنیٹ بھی اپنا نہیں ہے۔ جس دن بند ہو گیا یا علمی ورثے پر مغربی یلغار ہوگئ ( جیساکہ پہلے بھی ہمارے قیمتی کتب خانوں کو نام نہاد مغربی تہذیب یافتہ لوگوں نے خاکستر کیا تھا، جس کے بعد سے آج بھی امت تحقیقی میدان میں مضبوط قدم نہیں جماسکی) تو یہ دوبارہ کیسے دستیاب ہوگا؟۔
دار اللباب کا درد: ایک فکری لائحہ عمل
ایک دردناک واقعہ دار اللباب جیسے معتبر تحقیقی ادارے کے ساتھ پیش آیا، جس کا مکمل بیان خود ادارے نے جاری کیا:
کتابوں کے چوروں کے نام ایک سخت پیغام، دار اللباب کی طرف سے)
ہم نے دار اللباب میں علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کی مجموعہ رسائل پر 2018ء سے کام شروع کیا۔ ہم نے ان کے آثار کو مشرق و مغرب میں تلاش کیا، اپنے ذاتی خرچ سے ان کے مخطوطات کی نقول حاصل کیں، اور ہر ممکن کوشش کی کہ کوئی بھی دستیاب مخطوطہ ہم سے رہ نہ جائے۔
پھر علم و تحقیق کے ماہر محققین نے اس پر محنت کی: نسخہ بینی، مقابلہ، تصحیح، تحقیق اور تخریج کے مراحل مکمل کیے۔ اس کے بعد ہم نے بہترین قسم کے کاغذ خریدے اور اسے طباعت و جلد بندی کے لیے بھیج دیا، یہاں تک کہ یہ آخر 2024ء میں شائع ہو گیا۔
پھر تُو، اے ظالم چور! طباعت کے صرف چار ماہ بعد اس کا (PDF) ورژن لوگوں میں تقسیم کرنے آ جاتا ہے اور کہتا ہے:
"یہ میری طرف سے عیدی ہے”
(یہ تو نہ تیرے ماں باپ کا کمایا ہوا ہے، نہ تیرے محنت کی کمائی !)
اے کمزور ارادے والے!
اے دین کی نزاکت کو نہ سمجھنے والے!
اے خائن!
تُو نے یہ کام خود کیوں نہ کیا؟ تُو نے محنت، وقت، پیسہ اور توانائیاں کیوں نہ لگائیں؟
اگر تُو علم کی خدمت اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا اتنا ہی خواہشمند تھا تو خود یہ سب کیوں نہ کیا؟
دوسروں کی محنت چرا کر دعائیں بھی اپنے لیے مانگنے کا حق رکھتا ہے؟
ہم نے سابقہ مؤلفین کے حقوق ادا کیے، ان کے کام کو دقیق اور مستند طریقے سے تحقیق کر کے تحریف و تبدیلی سے پاک شائع کیا، تاکہ علم، دیانت اور امانت کے تقاضے پورے ہوں۔ ہم نے اپنی دنیا کی قیمتی چیزیں فروخت کر کے یہ کام کیا… اور تُو نے کیا قربانی دی، اے مجرم؟
اے کتابوں کے چور!
کیا تُو نے کبھی جامعاتِ ازہر، سعودی عرب اور دیگر علمی اداروں کے فقہی فیصلے نہیں دیکھے؟
کیا تجھے معلوم نہیں کہ ناشر کے بغیر کتاب کی طباعت یا ڈیجیٹل اشاعت ناجائز ہے؟
ہم تم جیسے چوروں اور بددیانت افراد کو اس علمی ورثے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، جو دین کی خالص خدمت کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں، چاہے لاعلمی میں یا کسی کے اشارے پر!
لیکن سن لو! ہم نے قانونی و عدالتی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ تمہیں دنیاوی عدالتوں میں بھی گھسیٹیں گے اور قیامت کے دن بھی اللہ کے حضور تمہارا مواخذہ کریں گے۔
حسبنا الله ونعم الوكيل!
(دار اللباب، تحقیقی و علمی خدمات کا ادارہ، 3 اپریل 2025 | 10 شوال 1446ھ”)ترجمہ از مؤلف
علم کی خدمت مگر دیانت و اجازت کے ساتھ
پس اے اہلِ علم، اہلِ قلم، اور امت کے خیرخواہو!
اگر واقعی تم علم کی خدمت کرنا چاہتے ہو،
اگر تمہارا مقصد لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
تو یہ راستہ دیانت، اجازت، اور نسبت کی درستگی سے گزرتا ہے۔
کسی کی محنت کو اجازت کے بغیر تقسیم کرنا، یا اپنے نام سے منسوب کرنا علمی چوری ہے، جس کی دنیا و آخرت میں باز پُرس یقینی ہے۔
آئیے، ہم سب مل کر علم و قلم کی حرمت کا دفاع کریں،
اور ان محنتی، دیانت دار اور مخلص اہلِ علم و ناشرین کی تکریم کریں۔ ہو سکے تو معاونت بھی کریں تاکہ دین و علم کی روشن شمع ہمیشہ فروزاں رہے۔ وما علینا الاالبلاغ
Leave a Reply