انسانی دماغ کتنے جی بی (GB) کا ہوتا ہے؟
تحریر: عبدالعلیم دیوگھری
سائنس و ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں جب بھی ہم بازار سے کوئی موبائل، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ خریدنے جاتے ہیں، تو سب سے پہلے جس چیز پر ہماری نظر جاتی ہے، وہ اس کی میموری پاور (Memory Power) ہوتی ہے۔ یعنی اس میں کتنی RAM اور ROM موجود ہے۔
بلا شبہ آج دنیا میں نہایت طاقتور کمپیوٹرز وجود میں آ چکے ہیں، جن کی رفتار انسانی دماغ سے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مشینیں، کمپیوٹرز اور ان کی ایجادات و اختراعات انسان کے دماغ ہی کا نتیجہ ہیں۔ یہ سب انسانی عقل و شعور کی پیداوار ہیں۔
لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انسانی دماغ کی اپنی میموری کتنی ہوتی ہے؟ یہ کتنی معلومات اپنے اندر محفوظ رکھ سکتا ہے؟
آئیے، اس دلچسپ سوال کا سائنسی جائزہ لیتے ہیں۔
انسانی دماغ کی میموری کتنی ہے؟
سائنس دانوں کے مطابق انسانی دماغ کی بنیادی اکائی کو نیوران (Neuron) کہا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر کی بنیادی اکائی بائٹ (Byte) ہے۔ کمپیوٹر میں اسٹوریج اور پروسیسنگ کے لیے مختلف ہارڈ ویئر استعمال ہوتے ہیں، جبکہ انسانی دماغ میں یہی کام نیوران انجام دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسانی دماغ کی میموری کو بالکل درست اعداد و شمار کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں؛ تاہم سائنسی تحقیق کی روشنی میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسانی دماغ کی میموری 1 ٹیرا بائٹ (TB) سے لے کر 2.5 پیٹا بائٹ (Petabyte) تک ہو سکتی ہے۔
1 ٹی بی اور 1 پیٹا بائٹ کیا ہوتے ہیں؟
ذیل میں ان یونٹس کا حساب پیش کیا جاتا ہے:
1024 میگا بائٹ (MB) = 1 گیگا بائٹ (GB)
1024 گیگا بائٹ (GB) = 1 ٹیرا بائٹ (TB)
1024 ٹیرا بائٹ (TB) = 1 پیٹا بائٹ (PB)
انسان اپنے دماغ کا کتنا حصہ استعمال کرتا ہے؟
یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ دماغ کی اس قدر وسیع میموری کے باوجود ایک عام انسان اپنی پوری زندگی میں اوسطاً صرف 512 ایم بی کے برابر دماغی صلاحیت استعمال کرتا ہے۔
جب کہ ایک ماہر فرد، مثلاً ڈاکٹر یا انجینئر، تقریباً 1 جی بی دماغ استعمال کرتا ہے۔
اگر کوئی نہایت ذہین اور کامیاب سائنس دان ہو، تو وہ زیادہ سے زیادہ 5 جی بی تک اپنے دماغی خزانے کو بروئے کار لا سکتا ہے۔
یوں انسان اپنی زندگی میں دماغ کے ایک بڑے حصے کو استعمال ہی نہیں کر پاتا۔
بیشک، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک عظیم نشانی ہے کہ اس نے انسان کو اتنا زبردست دماغ عطا فرمایا، جس کی گہرائیاں اور وسعتیں ابھی تک مکمل طور پر ہمارے فہم میں نہیں آ سکیں۔
Leave a Reply