یکساں سول کوڈ اور ہندوستانی مسلمان
احمد حسین
ریسرچ اسکالر ، جواہرلال نہرو یونیوسٹی
یونی فارم سول کوڈ جو صرف بحث کا ایک موضوع تھا اب حقیقت میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے، حکومت کے سرکردہ شخصیات اس بارے میں لکھ رہے ہیں، الگ الگ پلیٹ فارم میں اس پہ گفتگو ہو رہی ہے، خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی تقریر میں اس جانب اشارہ کرکے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اب ہندوستان میں یونی فارم سول کوڈ کا آنا طے ہے۔
لاء کمیشن نے بھی اس بابت عوام سے رائے طلب کی ہے، اس مطالبہ کے بعد سیاسی خیمہ میں ہنگامہ بھی تیز ہو گیاہے، اور مسلم قیادت بھی سر گرم ہو چکی ہیں، ہنگامی میٹنگ، بیانات کا سلسلہ، اور اس سے نبٹنے کے اسباب میں غور او خوض کا سلسلہ جاری ہے ، کوئی یہ مشورہ دے رہا ہے کہ اس میں صرف مسلمان ہی نشانہ میں نہیں آئیں گے بلکہ ہندوستان میں بسنے والے دیگر اقلیات اور مختلف قبائلی قومیں بھی اس زد میں آئیں گی، کوئی ابھی اس موضوع میں بات کرنے یا چرچہ کرنے سے منع کر رہا ہے، کہ جب تک اس کا مسودہ نا آ جائے اس پہ بات کرنا اس کے خلاف بولنا مناسب نہیں ہے، کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یو سی سی آئے نا آئے مسلمانوں کو پیش پیش رہنے کی ضرورت نہیں ، گویا جتنے منہ اتنی باتیں اور ہر ایک کے منفرد دلائل اور حجتیں۔
لیکن ان تمام چیزوں کے بیچ ایک چیز غائب ہے ، وہ ہے حقیقت کا اعتراف، آر ایس ایس اور اس کے طریقہ کار اور منصوبوں کا جانتے ہوئے بھی اگر کوئی طرح طرح کی باتیں کریں، مشورہ دے تو یہ مان لینا چاہئے کہ ان میں ذرہ برابر بھی سیاسی بصیرت نہیں ہے اور وہ تمام حقائق کو جاننے کے بعد بھی تجاہل عارافانہ برت رہا ہے، اور اسے یہ امید ہے کہ ان کے بولنے سے لکھنے سے، یا احتجاج کرنے سے کچھ بہتر ہو سکتا ہے،جو بھی مودی اور شاہ کے طریقہ کار پر نظر رکھتا ہے اور سیاست میں تھوڑی بھی دلچسپی ہے تو اس کے لئے اس حقیقت کا اعتراف کرنا بالکل مشکل نہیں ہوگا کہ اگر یو سی سی بی جے پی کے ایجنڈہ میں تھا تو وہ ہر صورت نافذ ہو کر رہے گا، اور اس کے خلاف بولنے والوں کے تمام حجتیں ردی کے ٹوکری میں ڈال دی جائے گی خواہ کتنی ہی منطقی اور مدلل کیوں نا ہو۔
کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی حکومت کی کوئی بھی بڑی پالیسی کی تبدیلی صرف اور صرف مسلمانوں کو نظر میں رکھ کر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ آر ایس ایس کی نظر میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بننے کی راہ میں صرف مسلمان ہی رکاوٹ ہیں، ہندوستان کی دیگر قوموں کو ہر چیز سے مستثنی رکھا جاتا ہے، سی اے اے ، این آر سی کا مسئلہ ہو یا طلاق اور اسکولوں میں حجاب کا، اس لئے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہئے کہ یو سی سی بھی اسلام دشمنی کاہی ایک مظہر ہے، یوسی سی لانے کا واحد مقصد مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں زمیں مزید تنگ کرنا اور مسلمانوں کو یہ احساس دلانا کہ وہ یہاں اول درجہ کے شہری نہیں رہے، وہ باہر سے آئے ہوئے ہیں، یہ آر ایس ایس کا بہت قدیم نظریہ ہےجسے اب وہ عملی طور پر بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں تو رہیں لیکن دوسرے درجہ کی شہری بن کر ، حکومت میں ،یہاں کے انتظامیہ میں ان کا کوئی دخل نہ ہو، امت شاہ نے پہلے ہی بیان دے کر واضح کر دیا ہے کہ عیسائی اور دیگر قبائل کو اس سے مستثنی رکھنے پر سرکار غو ر کر رہی ہے، جس کے بعد قبائلی قوموں اور عیسائیوں میں اٹھنے والی آواز دب چکی ہے اور وہ مطمئن ہیں، شاہ کے بیان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یو سی سی کا مطلب ہے صرف مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنا، لہذا دیگر قومیں پریشان نا ہوں۔
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی ڈرافت تیار نہیں ہے وہ ایک بھیانک قسم کے مغالطے میں ہیں، کیونکہ یہ مودی اور شاہ کے طریقہ کار کے خلاف ہے کہ وہ بغیر کسی تیاری کے سیاسی حلقوں میں بیان دینا شروع کر دیں اور لوگوں کی ذہن سازی میں لگ جائے، ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرافت پبلک میں نہیں ہے، باقی اس کے نفاذ کے تعلق سے اٹھنے والے تمام خدشات سے وہ پہلے سے ہی باخبر ہیں اور اس کے لئے وہ اسی کے مطابق حکمت عملی بھی تیار کر چکے ہیں، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آئیں اور قا نوں میں اتنی بڑی تبدیلی ہو اس سے اٹھنے والے اندیشوں سے بے خبر ہو، اگر ہم ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ہماری بھول اور سادہ دلی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج ہندوستان کی عدالتیں مکمل طور سے آر ایس ایس کے نرغہ میں ہیں اور ا سی کے اشارہ پہ کام کرتی ہیں ، لہذا مسودہ اگر عوام میں آ بھی جائے تو اس کے خلاف عدالت جانا بھی بے سود ہے۔
جس طرح بابری مسجد کے فیصلہ سے ایک سال قبل سپریم کورٹ کے ججوں کا حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرنا،اور حکومت پر سنگین الزامات لگانا اور یہ کہنا کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے، ہندوستاں کی جمہوریت خطرہ میں ہے،جس سے اس وقت سیاسی سطح پر ایک زبردست ہنگامہ بپا ہو گیا تھا اور سب حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے لیکن اس کے ٹھیک ایک سال کے بعد انہیں ججوں نے آئین اور جمہوریت کو پس پشت رکھ کر بابری مسجد کے خلاف فیصلہ دیاتھا، یہ محض ایک اتفاق نہیں تھا، ان ججوں کے ریٹارمنٹ کے بعد حکومت کی جانب سے اعلی عہدوں کو قبول کرنے کے بعد یہ صاف ہو گیا ہےکہ سال بھر پہلے رچی جانے والی پریس کانفرنس کی ڈوھنگ ایک سازش کا حصہ تھا۔
اسی طرح آج یکساں سول کوڈکا چرچہ میں آنا کچھ اچانک نہیں ہے، کئی سالوں سے اس کے نفاذ اور ممکنہ نتائج پر غور کیا جا رہا تھا، جب ساری باتیں ہو چکی اور صرف نفاذ باقی ہے تو اس کے لئے راہیں ہموار کی جا رہی ہیں، لہذا اس غلط فہمی سے باہر نلکنا چاہئے کے ابھی ڈرافٹ تیار نہیں ہے۔یو سی سی میں ان تمام پہلؤوں کا نہایت باریکی سے خیال رکھا جائے گا کہ مسلمانون کے علاوہ کسی دوسری قوم کو اس کا نقصان نہ ہو اس لئے مسودہ پبلک میں آنے یا نہ آنے سے کچھ نہیں بدلنے والا ہے۔
جہاں تک بات ہے مسلمان احتجاج کر یا نہ کرے ، اس سلسلہ میں بھی ایک بات صاف ہے کہ کسی بھی قسم کا کوئی بھی احتجاج خواہ بیانات کی شکل میں ہو ں، یا سڑکوں میں آکر نعرہ احتجاج بلند کرکے وہ محض ایک علامتی احتجاج ہوگا ، تاریخ میں یہ درج کرنے کے لئے کہ جس وقت یہ بل آیا تھا اس وقت ہم اس کے خلاف تھے، جہاں تک احتجاج کے ذریعہ حکومت کی موقف میں نرمی اور تبدیلی کی امید کی بات ہے تو وہ محض ایک خام خیال ہے، پوری مسلم آبادی بھی سراپا احتجاج ہو جائے پھر بھی مودی شاہ اپنے فیصلے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتے، اور پے بہ پے احتجاج اور مظاہروں کے بعد مسلمانوں میں اتنی سکت بھی باقی نہیں ہے کہ وہ جم کے اس کی مخالفت کر سکیں گے، اور بالکل آسانی سے یکساں سول کوڈ نافذ ہو جائے گا۔
یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ نریندر مودی صرف ہندتو کی ہی پالیٹکس نہیں کر رہا ہے اور صرف ہندو کی نشاہ ثانیہ ہی کے لئے فکرمند نہیں ہے، مودی خود اپنی تاریخ بھی رقم کر رہا ہے، اور ہندوستان کے سب سے عظیم لیڈر کے طور پر یاد رکھے جانے کے خوہاں ہے، اس لئے وہ ان تمام حساس مسائل کو ہاتھ لگانا چاہتا ہے جن میں لوگ احتیاط سے کام لیتے تھے، اور اس خواب کی تعبیر کےراستہ میں کوئی آئے یا کسی کے حقوق کی پامالی ہو مودی کو ذرہ برابر پرواہ نہیں ، چاہے اس کے لئے کتنی ہی معصوموں کی جانیں ہی کیوں نہ چلی جائے، کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کی تاریخ میں درج ہونے کے لئے ہر ایک کی منظور نظر ہونا ضرروی نہیں۔
مسلم قیادت اور مسلمانوں کے لئے صرف ایک راستہ ہے وہ ہے ٹکراو اور دفاع کے راستے کو ترک کرکے ایک قدم پیچھے ہٹ جانا، کیونکہ ایسے وقت میں جب پورا ہندوستان بیک زبان مودی کے ساتھ ہے اور امریکہ ، روس اور برطانیہ سمیت دوسرے بڑے مماملک بھی مودی کے ساتھ ہے تو ایسے وقت میں ٹکراؤ صرف مزید نقصان کا باعث ہوگا، ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے اصولوں سے مصالحت کر لیں، آر ایس ایس کا مقصد ہے ہماری تہذہب اور امتیازی تشخص کو ختم کرنا یہاں تک کہ ہم بھی بدھ اور جیں مذہب کی طرح ہندو تہذیب میں تحلیل ہو کر اپنی پہچان بھلا دیں اور "ہندوستانی” بن جائیں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم ان قانونی لڑایوں میں اپنی طاقت صرف کرنے کے بجائے اپنی تہذیب اور تشخص کی بقا میں توجہ دیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ تاریخ میں آج ہم پہلی دفعہ ایسے حالات سے دوچار ہوئے ہیں، ہماری تاریخ جہاں فتح کی داستانوں سے بھری پڑی ہے وہیں متعد بار ہم شکست و ریخت سے بھی دو چار ہوئے ہیں اور ہم نے مناسب وقت کے انتظار تک قدم پیچھے بھی ہٹایا ہے۔
سب سے حال کی تاریخ کی مثال دی جائے تو ۱۸۵۷ کی بغاوت ہمارے لئے سب سے بہترین مثال ہے، انگریزوں کے خلاف آخری کوشش اور بغاوت میں ناکامی ہوئی تو اس وقت کی ہماری قیادت نے ہتھیار پھینک کر گاؤوں اور دیہاتوں کا رخ کیا ، او ر یکسر اپنا طریقہ کار اور حکمت عملی کو تبدیل کر کے ایک نئے مشن میں لگ گئے تھے، پھر اسی ناکام بغاعت کے ملبہ سے دارالعلوم دیوبند جیسی تحریک ابھر کر سامنے آئی اور دینی درسگاہوں کا ایک جال پورے ہندوستاں میں یکایک بچھ گیا، جس نے اس بات کی ضمانت دی کہ ہندوستان سے اسلام کبھی مٹ نہیں سکتا، مسلمان جب تک یہاں رہے گا اپنی مکمل شناخت اور وقار کے ساتھ رہے گا، اور محض سو برس کے اندر ہی جن انگریزوں سے شکست کھائی تھی ان کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا، یہ ان کی دوررس اور سیاسی باریک بینی کا نتجہ تھا، لہذا ہم اپنی تاریخ سے سبق لیں اور اپنی حکمت عملی تبدیل کریں، بار بار حکومت کے پھیلائے ہوئے پھندے میں آنے سے بچیں، ایسی حکمت عملی اور طریقہ کار اپنائیں جو ہماری محفوظ مستقبل کا ضامن ہو نہ کہ حال کے سیاسی اتھل پتھل سے خودفزدہ ہو کر ایسا قدم اٹھائیں جس سے ہمارا مستقبل اور حال دونوں ہی خطرہ میں پر جائے۔
واللہ المستعان
Leave a Reply