کرکٹ کا جنون: شرعی نقطۂ نظر اور اس کے اثرات

کرکٹ کا جنون: شرعی نقطۂ نظر اور اس کے اثرات

کرکٹ کا جنون: شرعی نقطۂ نظر اور اس کے اثرات

کرکٹ کا جنون: شرعی نقطۂ نظر اور اس کے اثرات

 

 

موجودہ کرکٹ بینی: علمائے کرام کی عادت قبیحہ

کیوں کہ اس دور عوام تو عوام خواص بھی اس حرام کاری میں مبتلا ہیں، الا ماشاء اللہ۔

 

کرکٹ ایک کھیل ہے جو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے، خاص طور پر بھارت میں جہاں اس کا جنون سر چڑھ کر بولتا ہے۔ آئی پی ایل (Indian Premier League) جیسے ایونٹس نے اس کھیل کو نہ صرف تفریح کا ذریعہ بنا دیا بلکہ ایک تجارتی صنعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاہم، اس کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اس میں شامل ہونے والے مختلف پہلو، جیسے جوا، سٹے بازی، فحاشی، بے حیائی، اور وقت کی بے جا بربادی، نے اس پر شرعی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ موجودہ دور میں کرکٹ بینی (کرکٹ دیکھنا) علمائے کرام کی عادت قبیحہ کیوں بن چکی ہے اور کیوں اس حرام کاری میں عوام تو عوام، خواص بھی مبتلا ہیں۔

 

1. کرکٹ اور اس کا تجارتی پہلو

آج کرکٹ ایک وسیع تجارتی صنعت بن چکا ہے، اور آئی پی ایل جیسے ایونٹس میں کروڑوں روپے کی گردش ہوتی ہے۔ اس کا تجارتی پہلو اکثر اسلامی اصولوں کے خلاف ہوتا ہے کیونکہ اس میں جوا، سٹے بازی اور منافع کی غرض سے غیر اخلاقی طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ کرکٹ کے اس تجارتی پہلو نے اس کھیل کو محض تفریح سے بڑھا کر ایک کاروباری سرگرمی بنا دیا ہے، جس سے لوگوں کی معاشی حالت متاثر ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کھیل میں پیسہ لگاتا ہے یا جوا کھیلتا ہے، تو یہ شرعاً حرام ہے۔

 

2. کرکٹ اور وقت کی بربادی

آج کل کے دور میں کرکٹ دیکھنا ایک عام عادت بن چکا ہے، اور بہت سے لوگ، خصوصاً نوجوان طبقہ، دن بھر اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ کرکٹ میچز دیکھنے میں ضائع کرتے ہیں۔ اس کا اثر نہ صرف ان کی ذاتی زندگی پر پڑتا ہے بلکہ ان کے دینی فرائض اور اخلاقی ذمہ داریوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ نمازیں، پڑھائی، کام کاج، اور دیگر ضروری کام کرکٹ کے میچز کے دوران نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ علمائے کرام نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس قسم کی عادات وقت کی ضیاع کے مترادف ہیں اور یہ دین اسلام کے اصولوں کے خلاف ہیں۔

 

3. جوا اور سٹے بازی

آئی پی ایل جیسے کرکٹ ایونٹس میں جوا اور سٹے بازی کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ لوگ اپنے پیسے لگاتے ہیں اور میچ کے نتائج پر پیشگوئی کرتے ہیں، جس میں نہ صرف ان کی مالی حالت متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ شرعی طور پر حرام ہے۔ اسلام میں جوا کی مکمل ممانعت ہے کیونکہ اس میں بے بنیاد طریقوں سے پیسہ کمانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں لوگوں کی جیبوں کی بے جا لٹنا ہوتا ہے۔ اس کا اثر صرف فرد پر نہیں بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے، کیونکہ اس سے اخلاقی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

 

4. فحاشی اور بے حیائی

آئی پی ایل اور دیگر کرکٹ ایونٹس میں جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں، وہ اکثر فحاشی اور بے حیائی پر مبنی ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے لباس، نرگسیت کے عناصر، اور میچ کے دوران چلنے والے اشتہارات میں بھی اکثر غیر اخلاقی مواد ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا غماز ہے کہ کرکٹ کے اس کھیل کو تفریح اور کھیل کے بجائے ایک معاشرتی نقصان کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلام میں عورتوں کے لباس، مردوں کے لباس، اور بے حیائی سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ ایسی تفریح میں شرکت کرنا یا اسے دیکھنا شرعی طور پر ممنوع ہے۔

 

5. علمائے کرام کی غفلت

عجب بات یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی کرکٹ بینی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ علمائے کرام، (الا ماشاء اللہ) جو دینی مسائل میں رہنمائی فراہم کرنے والے ہوتے ہیں، خود کرکٹ میچز دیکھنے اور اس میں حصہ لینے کے عادی بن چکے ہیں۔ اس کا سبب شاید اس کھیل کی غیر معمولی مقبولیت ہو یا پھر اس کی تفریحی نوعیت، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دین کے علم رکھنے والے خود ان حرام کاموں میں مبتلا ہو جائیں تو عوام کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں لوگوں کو آگاہ کریں اور انہیں اس عادت سے بچنے کی کوشش کریں۔

 

6. خواص اور عوام کا مماثل رویہ

آج کل کے معاشرے میں خواص (یعنی علمائے کرام، اساتذہ، اور دینی افراد) اور عوام دونوں میں کرکٹ بینی کی عادت کا غلبہ ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے اسلامی تعلیمات کے تناظر میں نہ صرف غلط سمجھا جاتا ہے بلکہ اس سے معاشرتی اخلاقیات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ جب وہ لوگ جو دینی علم رکھتے ہیں، خود اس طرح کے غیر اسلامی کاموں میں ملوث ہوں گے، تو عوام پر اس کا برا اثر پڑے گا اور وہ بھی اسے جائز سمجھنے لگیں گے۔

 

7. ایک ٹیم کی حمایت میں دوسری ٹیم کے حامیوں سے نفرت کرنا

ایک اور قبیح عادت جو کرکٹ کی دنیا میں بڑھ رہی ہے وہ ہے کسی ٹیم کی حمایت میں دوسری ٹیم کے حامیوں سے نفرت کرنا۔ یہ منافرت کی ایک شکل ہے جس کا نتیجہ صرف ذاتی دشمنیوں اور فرقہ بندی کی صورت میں نکلتا ہے۔ کرکٹ میچز کے دوران کسی خاص ٹیم کے حامیوں کے درمیان یہ نفرت آمیز رویہ خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیے بالخصوص غیر اسلامی رویوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں دشمنی اور نفرت کی جگہ نہیں ہے، اور کرکٹ جیسے کھیل میں اس قسم کی منفی عادات کو اپنانا قطعی جائز نہیں ہے۔

 

8. کرکٹ میچ دیکھنے کے بعد پھر تبصرے کرکے وقت ضائع کرنا

میں نے بہت سارے افراد کو  دیکھا ہے کہ : کرکٹ میچز دیکھنے کے بعد اس پر تبصرے کرتے کرتے گھنٹوں گنوا دیتے ہیں اور اس طور پر تبصرے کرنا بھی ایک عام عادت بن چکا ہے۔ یہ تبصرے بعض اوقات اتنے طویل ہوتے ہیں کہ افراد اپنے اہم کاموں اور ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور دن کا بڑا حصہ ان باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔ جب یہ تبصرے بڑھتے ہیں تو اس میں زیادہ تر فالتو باتیں، مذاق، یا غیر ضروری بحثیں ہوتی ہیں، جو کہ وقت کی بربادی کے مترادف ہیں۔ ان تبصروں میں کوئی ایسا فائدہ نہیں ہوتا جو کسی بھی شخص کی ذاتی یا اجتماعی بہتری کے لیے مفید ہو۔

 

بالآخر:

موجودہ دور میں کرکٹ بینی ایک عادت قبیحہ بن چکی ہے جس میں عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی مبتلا ہیں۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں لوگوں کی رہنمائی کریں اور انہیں اس عادت سے بچنے کی تلقین کریں۔ کرکٹ کے اس تجارتی پہلو، جوا، سٹے بازی، فحاشی، اور وقت کی بے جا ضیاع کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس کھیل کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے اور اس کی شرعی حیثیت پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں اپنے وقت، پیسہ اور محنت کو زیادہ مفید اور جائز طریقوں میں استعمال کرنا چاہیے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے