بارات کی تاریخی و شرعی حیثیت

بارات کی تاریخی و شرعی حیثیت

بارات کی تاریخی و شرعی حیثیت

 

بارات کی تاریخی و شرعی حیثیت

 

از: عبدالعلیم دیوگھری

 

بارات کی تاریخ

بھڑکیلے اور زرق برق پوشاکوں میں ملبوس ایک انبوہِ کثیر، مرد و زن اور نوجوانوں کا جمِ غفیر، چمکتی اور سجی سجائی ہوئی گاڑیوں اور کاروں کی لمبی قطار، بینڈ باجوں کی شیطانی دھنوں پر رقص کرتے اوباشوں کا ہجوم، فضا میں لہراتے پٹاخوں کی گھن گرج اور رنگارنگ روشنیوں کے مناظر کس نے نہیں دیکھے ہیں؟ شادی کے موقع پر نکلنے والا یہ جلوس آج برِصغیر کی شادیوں کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ بارات کے نام سے موسوم یہ ثقافتی رسم قدیم ہندوستان کی شادیوں کے مختلف رسومات کا ایک تسلسل ہے، راجپوتانہ اور دور مغلیہ میں اس کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔

راجپوت اور دیگر جنگجو قومیں شادی کی تقریب کے موقع پر اپنی شوکت و عظمت اور رعب داب کے اظہار کے لیے بڑے کروفر کے ساتھ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار تلوار لہراتے ہوئے دلہن کو لینے کے لیے جایا کرتے تھے۔ دورِ مغلیہ میں مسلمانوں کے درمیان بھی اس رسم کی پذیرائی ہونے لگی، اول اول امرا اور اشرافیہ کی شادیوں تک یہ چیز محدود رہی؛ مگر اظہارِ تفاخر میں عام لوگ پیچھے رہنا کیسے گوارہ کر سکتے تھے؛ سو انھوں نے بھی اس ثقافت کو اپنانا شروع کر دیا اور آج اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ بہت سے لوگوں کے یہاں بارات کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں ہے۔

 

اسلامی تاریخ میں اگر بارات کے نمونے تلاش کیے جائیں تو کہیں بھی اس کی نظیر نہیں ملتی، یہ روایت اسلامی تاریخ کا حصہ نہیں ہے، وہاں تو سادگی کا یہ عالم ہے کہ چند لوگ گھر کے کسی کونے میں جمع ہوئے، نکاح ہوا، طرفین کے گھر والوں کے سامنے اعلان ہوا اور لڑکی کو ہمراہ لے آئے اور استطاعت ہوئی تو ولیمہ بھی کر لیا۔

 

بارات کی شرعی حیثیت

اب اگر بارات کی شرعی حیثیت کے متعلق بات کی جائے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے نکاح کو سادگی اور آسانی کے ساتھ انجام دینے کی تلقین کی ہے اور اس کو خیر و برکت کا ذریعہ بتایا ہے، قرآن و سنت میں نکاح کی جو تفصیلات ہیں ان میں بارات کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے، لہذا معلوم ہوا کہ بارات کوئی شرعی چیز نہیں؛ بلکہ ایک ثقافتی رسم ہے؛ لہذا اگر تمام تر منکرات سے بچتے ہوئے اور شریعت کے اصولوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے بارات کو انجام دیا جائے تو جواز کا پہلو نکل سکتا ہے؛ تاہم اس کو مستحسن ابھی بھی نہیں کہا جا سکتا۔

ایسی بارات جس میں شرعی اصولوں کی پامالی نہ ہوتی شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے، عام طور پر جو بارات ہمارے یہاں رواج پذیر ہے ان میں انگنت مفاسد ہیں، جن کی وجہ سے علما نے مروجہ بارات کو ناجائز قرار دیا ہے۔

 

مروجہ بارات کے مفاسد

ذرا بصیرت کی نگاہوں سے مروجہ بارات کے مفاسد کا تجزیہ کیجیے، معلوم ہوگا کہ کس طرح علانیہ طور پر شیطانی حرکتوں کو فروغ دیا جاتا ہے اور نوجوان ان سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دوٹوک لفظوں میں کہا جائے تو اس بارات نامی مجموعۂ خرافات کی بنیاد ہی شیطانی عمل پر قائم ہے، اور وہ شیطانی عمل ”بےجا اسراف اور فضول خرچی“ ہے، گاڑیوں کے قافلوں، قیمتی لباسوں، راہگیروں کی نگاہوں کو کھینچتے رنگ برنگ قمقموں اور مکروہ آواز والے بینڈ باجوں پر بےدریغ پیسہ بہایا جاتا ہے۔ قرآن کی تشریح کے مطابق ان بے معنی چیزوں پر بےتحاشا اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے، گویا یہ عمل شیطانی ہے اور ان لوازمات کے اہتمام کے بغیر بارات کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ہے، معلوم ہوا کہ مروجہ بارات کی بنیاد ہی شیطانی عمل پر قائم ہے اور بھلا ایک شیطانی عمل کو کس طرح جواز کی سند فراہم کی جا سکتی ہے؟

 

مزید غور کیجیے کہ آخر ان بےجا فضول خرچیوں کے پسِ پردہ کون سا عظیم الشان مقصد پوشیدہ ہے؟ وہ عظیم الشان مقصد کچھ اور نہیں؛ بلکہ ریاکاری اور نمود و نمائش ہے، عام طور پر معاشرے میں جو لوگ بارات میں بےتحاشا خرچ کرتے ہیں ان کا مقصد اپنی شان و شوکت، بڑائی اور دولت و ثروت کی فراوانی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے، یہ نیتوں کا فتور ہے کہ نکاح جیسے پاکیزہ عمل کو ریاکاری اور تکبر کی آمیزش سے داغ دار کر دیا جائے، دینِ متین میں ریاکاری اور تکبر کی کسی بھی طور پر گنجائش نہیں ہے، یہاں تو ہر عمل میں سراسر اخلاص مطلوب ہے۔

 

پھر بڑے تزک و احتشام اور شاہانہ انداز میں بارات روانہ ہوتی ہے، باراتیوں کا ہجوم جب منزل تک پہنچتا ہے تو بے پردہ نوجوان خواتین پھولوں کا تھال لیے ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہوتی ہیں اور گل پاشی کرکے باراتیوں کی آمد کی نوید سناتی ہیں، پھر شور و غل کا سماں بندھ جاتا ہے اور لڑکے والے آتش بازیاں جلاکر پورے اہل محلہ کی نیندیں خراب کرتے ہیں۔

ان سارے خرافات میں لوگوں کے انہماک کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انھیں اپنے وقت اور توانائی کے ضیاع کا کوئی احساس نہیں ہوتا، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے درمیان عشق و جنوں کی الگ ہی داستان چل رہی ہوتی ہے، دیدہ زیب لباسوں میں ملبوس، چہرے پر سرخ و سفید غازہ کی پرتیں چڑھاکر، لبوں پر تبسم اور لال شفق کی جھلک سجاکر اپنی جنبشِ ابرو سے نوجوانوں کو اپنے حسن کے طلسم میں گرفتار کرتی نوجوان بچیاں جس حیاسوزی کا مظاہرہ کرتی ہیں اس پر انا للہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ آخر کس غافل والدین کی زیرِ تربیت یہ پروان چڑھی ہیں؟

آخر اس بےپردگی پر مشتمل بےہودہ عمل کی کس طور پر پذیرائی کی جا سکتی ہے؟

 

 

مزید غور کیجیے کہ بارات جیسے واہیات رسم کو فروغ دینے والوں نے کیسا معاشرتی ظلم کیا ہے کہ غریب اور نادار طبقوں کو بھی معاشرتی دباؤ کے نتیجے میں اس رسم کی نقل کرنی پڑ رہی ہے، اس کے لیے سالوں پہلے سے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور قرضے لیے جاتے ہیں؛ تاکہ ایک مخصوص دن میں اس رسمِ بد کو اداکر کرکے سڑے ہوئے معاشرے کو خوش کیا جا سکے۔

 

یہ بھی پڑھیں: شادی میں لڑکی کی پسند غیر اہم کیوں؟

ہماری ذمہ داریاں

حاصل یہ ہے کہ کس بھی زاویے سے غور کر لیں اس رسم میں خیر کا کوئی پہلو نظر نہیں آئےگا؛ لہذا بہ حیثیت مسلم ہمیں چند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ان سے اگر چہ اس رسم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگا؛ تاہم اس کی شرح میں کمی واقع ہونے کا ضرور امکان ہے۔

 

پہلی چیز یہ ہے کہ کسی بھی اصلاحی تحریک کا آغاز خود اپنی ذات سے کرنا چاہیے؛ لہذا اگر آپ دلہا یا دلہن والے ہیں تو باہمی مشاورت کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کریں کہ اس رسم کو انجام نہ دیا جائے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ شادی کے موقع پر جو سنتیں متروک العمل ہیں انھیں زندہ کیا جائے؛ کیوں کہ سنتیں زندہ ہوں گی تو رسموں اور بدعتوں کی بنیاد خود بخود اکھڑنے لگےگی، سنتیں مٹتی ہیں تبھی بدعتوں کے برگ و بار پھیلتے ہیں۔

تیسری چیز یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے دعوتی منصب کو یاد رکھتے ہوئے انفرادی یا اجتماعی ہر دو سطح پر اس رسم کے مفاسد کو نمایاں کرے، اس سے کم از کم اتنا تو ضرور ہوگا کہ لوگ اس رسم کو بہ نظر استحسان دیکھنا چھوڑ دیں گے۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ اگر بارات وغیرہ میں کسی مجبوری یا رشتہ داری کے خیال کی وجہ سے جانا پڑ جائے تو ذاتی طور پر حتی الامکان ان خرافات کا حصہ بننے سے بچنے کی کوشش کریں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ خود بھی محظوظ ہونے لگ جائیں۔

اور آخری چیز یہ ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کرنے کی کوشش کریں یہ بارات نامی رسم ہماری اسلامی روایت کا حصہ نہیں ہے؛ بلکہ اظہار تفاخر پر مشتمل یہ ایک ہندوانہ رسم ہے؛ لہذا اس میں شرکت کرنے سے بچو، اس کی حوصلہ شکنی کرو اور اپنی شادی کی تقریبات کو اس رسمِ بد سے ہرگز آلودہ نہ کرو۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے