شادی میں لڑکی کی پسند اتنی غیر اہم کیوں؟
از: عبدالعلیم دیوگھری
اس بات کو تسلیم کرنا شاید دشوار ہو؛ مگر یہ حقیقت ہے کہ عورت ذات آج بھی معاشرتی سطح پر مظلوم بنی ہوئی ہے، اس دنیائے تگ و تاز میں ایک بچی جب اپنی شعور کی آنکھیں کھولتی ہے تو وہ اپنے گرد و پیش کے حالات، ماحول اور لوگوں کے برتاؤ اور رویے کو دیکھتی ہے، جس سے غیر شعوری طور پر اسے اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ سماج میں بطور فرد واحد اس کے وجود اور ہستی کی کوئی وقعت نہیں ہے، بچی کی پرورش اس نہج پر ہوتی ہے کہ وہ ایک خدمت گزار کے طور پر پیدا کی گئی ہے اور اسے اپنی خوشیوں کے بجائے دوسروں کی خوشنودی کی پروا ہونی چاہیے؛ چناں چہ اسے دوسروں کی رضا جوئی کے گُر سکھائے جاتے ہیں، گویا تربیتی مراحل ہی میں اس معصوم کلی کے دماغ میں یہ خیال راسخ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی، خوشیوں خواہشوں، تمناؤں اور امنگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ماحول کی اس کثافت اور معاشرے کی ان بےجا سختیوں کے زیرِ اثر جب ایک کلی پروان چڑھتی ہے اور شباب کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اسے اپنے حدود، ذاتی کم مائیگی اور معاشرے میں اپنی ثانوی حیثیت کا مکمل احساس و ادراک کرایا جا چکا ہوتا ہے۔
الغرض ان معاشرتی رویوں کی وجہ سے عورت اپنے وجود اور شناخت میں مرد پر منحصر ہوکر رہ جاتی ہے، وہ مرد ایام طفولیت میں بشکل پدر موجود ہوتا ہے پھر جوان ہونے کے بعد شوہر عورت کے وجود و شناخت کی علامت بن جاتا ہے۔
شوہر کا انتخاب شادی کے ذریعے طے پاتا ہے، شادی عورت کے لیے ایک خوشگوار اور باعزت مستقبل کی راہ ہموار کرتی ہے، اس لیے شوہر کے انتخاب کا مرحلہ بڑا سنجیدہ ہوتا ہے کہ اچھے یا برے شوہر کا انتخاب ہی لڑکی کے مستقبل کا تعین کرتا ہے؛ اس لیے اس انتخاب میں لڑکی کی پسند و ناپسند اور اس کی ترجیحات کو خاص اہمیت دی جانی چاہیے۔
معاشرے کی غیر شرعی حدبندیاں
مگر معاشرے کی عائد کردہ حدبندیوں کی وجہ سے اس موقع پر بھی لڑکی کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر پاتی ہے، اتنے بڑے اور سنجیدہ فیصلے کے وقت بھی اس کی مرضی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے، یہ ہمارے عفونت زدہ معاشرے کا سیاہ باب ہے جس کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا یا کرنا نہیں چاہتا۔
مگر اس حقیقت سے انکار کی جرات بھی کسی کو نہیں ہو سکتی کہ والدین اور معاشرے کے ان سفاکانہ اور ظالمانہ رویوں کی وجہ سے کتنی بیٹیوں کی معصوم تمناؤں، خوابوں، آرزوؤں اور خوشیوں کا خون ہو جاتا ہے اور ان کے تابناک مستقبل کو خوفناک بنا دیا جاتا ہے۔
لڑکے اور لڑکی جب قریب البلوغ ہوتے ہیں تو وہ اپنے مستقبل کے شریک حیات کے متعلق سوچتے ہیں، آنکھوں میں خواب سجاتے ہیں اور آرزوؤں کا محل تعمیر کرتے ہیں، وہ بڑی شدت سے لمحے کا انتظار کرتے ہیں، اور دل سے ایک اچھے اور ہم مزاج شریک حیات کی خواہش رکھتے ہیں؛ مگر لڑکے کو ان کے خوابوں کی تعبیر کا حق تو دے دیا جاتا ہے؛ مگر بےچاری لڑکی کے آرزوؤں کا محل مسمار کر دیا جاتا ہے۔
لڑکی کی پسند اس کا شرعی حق
شریعت اسلامیہ نے ہر فرد کو حقوق و اختیارات عطا کیے ہیں اور لڑکے اور لڑکی دونوں اپنے شریک حیات کے انتخاب میں کلی طور پر بااختیار ہیں، جس طرح نکاح میں لڑکے کی رضامندی ضروری ہے اس طرح لڑکی کی بھی خوشنودی لازم ہے، اس کی رضامندی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے کتاب و سنت میں صریح دلائل موجود ہیں، چناں چہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کی اجازت ہے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ (صحیح البخاری)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے جب کہ وہ اس رشتے کو ناپسند کرتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو فسخ کر سکتی ہے یا باقی رکھ سکتی ہے۔
(سنن ابوداؤد)
اس بات کا بھی خیال رہے کہ لڑکی کی رضامندی رسمی نوعیت کی نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ اس کو اس حوالے سے مکمل اختیار دیا جانا چاہیے، عام طور پر لڑکی کی دلی رضامندی نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ وہ والدین کی اطاعت کے جذبے یا ان کے دباؤ یا کسی اور نفسیاتی وجہ سے رشتے کے لیے ”ہاں“ کہہ دیتی ہے، اسے اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ وہ والدین کے انتخاب کو ناپسند کرےگی تو والدین کی نگاہوں میں وہ نافرمان شمار کی جائے گی، اسے ماں باپ تربیت کا حوالہ دینے لگیں گے اور معاشرہ بھی ترچھوں نگاہوں سے اسے گھورنے لگےگا، اس قسم کے خدشات کے پیش نظر وہ علانیہ اور آزادانہ طور پر اپنی رائے ظاہر نہیں کر پاتی ہے۔
عقلی طور پر لڑکی کی پسند زیادہ اہم ہے
ہم ذرا سوچیں تو معلوم ہوگا کہ عقلی طور پر شریک حیات کے انتخاب میں لڑکے سے زیادہ لڑکی کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا چاہیے؛ کیوں کہ نکاح کے بعد ازدواجی زندگی میں رنجش و کشیدگی پیدا ہو جانے کی صورت میں لڑکے کے پاس ”طلاق“ کا حق ہوتا ہے جس کا استعمال کرکے وہ علاحدگی حاصل کر سکتا ہے، جب کہ لڑکی کے پاس ایسا کوئی حق نہیں ہوتا۔
لڑکی کو بس ایک دفعہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور یہ ایسا عظیم فیصلہ ہوتا ہے جس سے اس کا مستقبل اور ذہنی و جسمانی آسودگی وابستہ ہوتی ہے، کتنی شرمناک اور قابل افسوس بات ہے کہ اس سے اس فیصلے کا حق بھی چھین لیا جائے۔
اس سفاک معاشرے پر ماتم کیجیے جس کی فرسودہ خیالی اور تنگ نظری نے پھول جیسی بچیوں کے پاؤں میں زنجیریں پہنا دی ہیں، اس کی آرزوؤں کا خون کیا ہے، اس کی تمناؤں کو روندا اور اس کی امیدوں کا چراغ گل کر دیا ہے۔
والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شریعت نے لڑکی کو شریک حیات کے انتخاب کا پورا حق دیا ہے، والدین کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جبرا اپنی مرضی اس کے سر تھوپ دیں، ان کو مشورہ دینے حق حاصل ہے اپنا حکم جبرا نافذ کرنے کا ہرگز نہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ لڑکی کسی خاص لڑکے سے نکاح کے رجحان کو ظاہر کردے یا والدین کے انتخاب پر راضی نہ ہو تو یہ بغاوت، نافرمانی یا حکم عدولی نہیں ہے؛ بلکہ وہ اس کا شرعی و فطری حق ہے اور اگر اس سے اس کا یہ حق چھینا جائے تو والدین اللہ کے ہاں قابل مواخذہ ہوں گے۔
گاؤں دیہات میں رہنے والی بچیوں کو اپنے اس حق کا ادراک ہی نہیں ہوتا ہے؛ لہذا انھیں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ شریعت نے انھیں یہ حق دیا ہے اور وہ مکمل اختیار کے ساتھ اس کا استعمال کر سکتی ہیں، علما و خطبا کو اپنے بیانات میں اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت ہے، تب جاکر ان غیر شرعی حدود و قیود سے حوا کی بیٹیاں آزاد ہو پائیں گی۔
لڑکی کے ساتھ حقیقی خیر خواہی
والدین اگر صحیح معنوں میں اپنی بیٹیوں کی خیر خواہی چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ان کی خوشیوں کو قید نہ کریں، ان کی پسند کو سمجھیں، ان کے بھی دل ہوتے ہیں، خواب اور خواہشات ہوتے ہیں، ورنہ ایسا ہوگا کہ بیٹیاں گھٹ گھٹ کر ایک زبرستی کے رشتے میں بندھ کر اپنی زندگی فنا کردیں گی۔
والدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بیٹیوں کی خوشی ان کی ضد اور جھوٹی انا سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس کی تمنائیں معاشرے کی فرسودہ روایتوں سے زیادہ اہم ہیں، بیٹیاں خدا کی رحمت ہیں؛ لہذا ان کی خوشیوں کا احترام کیجیے ان کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیے اور ان کے دل کی صدا سنیے؛ تاکہ وہ دعائیں دے اور نجات و مغفرت کا ذریعہ بن سکے۔
Leave a Reply