والدین کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے والدین کو بہت اونچا مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے، والدین خدا کی وہ نعمت ہیں جن کے واسطے سے انسان اس دنیا میں وجود پذیر ہوتا ہے، اور اس جہان آب و گل کی رنگینیوں، بہاروں اور جمال آرائیوں سے شاد کام ہوتا ہے۔
والدین اپنی اولاد کی پرورش و پرداخت اور ان کی تعلیم و تربیت کی خاطر اپنی آسایشوں اور خواہشات کو تج دیتے ہیں، ان کی انھی عظیم قربانیوں کی بدولت حق تعالیٰ نے انھیں بلند رتبے اور مقام و مرتبے سے سرفراز فرمایا ہے، والدین کی عظمت و مقام کو قرآن و احادیث میں جابجا بیان کیا گیا ہے؛ لہذا اس تحریر میں والدین کی عظمت و مقام کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا جائےگا۔
والدین کی عظمت قرآن کی روشنی میں
قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر والدین کی عظمت کو بیان کر ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے حقوق کی پاسداری پر زور دیا گیا ہے، چناں چہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد وارد ہے:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا. (بنی اسرائیل 23)
اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تک نہ کہو اور نہ ہی انھیں جھڑکو، بلکہ ان سے ادب کے ساتھ گفتگو کرو۔
اس آیت کریمہ سے والدین کی عظمت کا پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں ایسی عظیم ہستیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ معمولی درجے کی بےادبی کو بھی ناپسند فرمایا ہے اور والدین کی خوشنودی کو اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر یہ ارشاد وارد ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ. (سورہ احقاف 15)
اور ہم نے انسان کو حکم دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرے، اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں مشقت سے رکھا اور مشقت سے جنا۔
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے اور ان قربانیوں اور مشقتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کی وجہ سے ماں کی عظمت نمایاں ہو جاتی ہے۔
والدین کی عظمت احادیث کی روشنی میں
احادیث مبارکہ میں بھی بہ کثرت والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے تلقین آئی ہے، چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ قَالَ : "الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا”. قال: ثمَّ أيٌّ؟ قال: "ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ”. قال: ثمَّ أيٌّ؟ قال: "الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ. (رواہ البخاری)
ترجمہ: تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کونسا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔
کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا، پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کے ساتھ خوش معاملگی اور حسن سلوک کی کیا اہمیت و فضیلت ہے۔
باپ کی عظمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الوالِدُ أوسطُ أبوابِ الجنَّةِ، فإنَّ شئتَ فأضِع ذلك البابَ أو احفَظْه. (رواہ الترمذی)
ترجمہ: باپ جنت کا بہترین دروازہ ہے، پس تم چاہو تو اسے ضائع کردو یا اس کی حفاظت کرو۔
یعنی باپ کی فرمانبرداری و اطاعت جنت کا ضامن ہے اور اس کی نافرمانی جنت سے محرومی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
ماں کی عظمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الجنة تحت أقدام الأمهات. (رواه ابن عدي في الكامل)
ترجمہ: ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔
اس حدیث کا مفہوم بھی واضح ہے کہ ماں کی اطاعت جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے اور اس کی نافرمانی جنت سے محروم کر دیتی ہے۔
نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا:
يا رسول الله: من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمك، قال: ثم من؟ قال: أمك، قال: ثم من؟ قال: أمك، قال: ثم من؟ قال: أبوك. (رواہ البخاری والمسلم)
ایک اللہ کے رسول! لوگوں میں کون میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں، پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں، پھر پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں، پھر پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تمہارا باپ۔
اس حدیث سے ماں کے بلند رتبے و مقام کا اندازہ ہوتا ہے، کہ انسان کے حسن سلوک کا سب سے زیادہ استحقاق ماں کو حاصل ہوتا ہے، نیز یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ماں کا مقام باپ سے بھی بڑھا ہوا ہے، اور فوقیت کی وجہ ظاہر ہے کہ ماں اولاد کی خاطر باپ کے بالمقابل زیادہ تکلیفیں برداشت کرتی ہیں۔
والدین کی دعا کی اہمیت
والدین کی دعا اولاد کے حق میں ضرور قبول ہوتی ہے؛ چناں چہ حدیث شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ثلاث دعوات مستجابات، لا شك فيهن: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده. (رواہ ابوداؤد والترمذی)
ترجمہ: تین قسم کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہوتا، (1) مظلوم کی دعا، (2) مسافر کی دعا، (3) اولاد کے حق میں والدین کی دعا۔
لہذا اولاد کو چاہیے کہ والدین کی خدمت گزاری کرکے اور انھیں خوشی فراہم کرکے ان سے دعائیں لے۔
اولاد پر والدین کے فرائض
والدین اولاد کی تربیت و پرورش بڑی محنت و جانفشانی کے ساتھ کرتے ہیں، اولاد کی خاطر اپنا چین سکون اور نیند سب قربان کر دیتے ہیں، والد اولاد کو اچھا پہنانے اچھا کھلانے کے لیے محنت و مشقت کرتا ہے اور ہیمشہ ان کی اچھی مستقبل کے لیے فکرمند رہا کرتا ہے، لہذا اولاد پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ والدین کے فرائض کو بخوبی انجام دے۔
اولاد کو ان چند چیزوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے:
(1)والدین کی فرمانبرداری کرے، ان کا ہر حکم بجا لائے اور ان کے سامنے ہمیشہ عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئے۔
(2) جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کا سہارا بنے۔
(3) ان کی خدمت کو اپنا سب سے بڑا فرض سمجھے، ان کے کھانے پینے اور پہننے وغیرہ کا خاص خیال رکھے، خود سے اچھا انھیں کھلائے اور خود سے اچھا پہنائے۔
(4) ان کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ گفتگو کریں۔
(5) ہمیشہ ان کے حق میں خیر اور بھلائی کی دعا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: والدین کے ساتھ حسن سلوک کے 33 آداب
حاصل یہ ہے کہ والدین کی عظمت اور رتبے کو اللہ تعالیٰ نے بہت بلند کیا ہے، بظاہر معمولی نظر آنے والی یہ ہستیاں اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت اونچا مقام رکھی ہیں، وہ اولاد کی جنت و جہنم کا ذریعہ ہیں، لہذا ہمیں چاہیے کہ بھرپور ان کی خدمت کریں، ان کی اطاعت بھی پل بھر بھی دیر نہ کریں اور ان سے دعائیں لیتے رہیں، ان کی رضا کو اللہ تعالیٰ رضا سمجھیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو والدین کی بھرپور خدمت گزاری کی توفیق بخشے۔