ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
از: محمد مشتاق نوری
"ابے جاہل تجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ سید اگر فاسق بھی ہو جائے، شرابی ہو، جواری ہو، زانی ہو، سنیما دیکھنے والا ہو، بدکردار ہو، لڑکی باز ہو، تب بھی اس کی تعظیم واجب”
مذکورہ بالا مقدس کلمات ہیں سید والا تبار، جنت کے ٹھیکیدار، اسلامی برہمن واد کے پوجنی اوتار، خطیب برق بار نورانی میاں کے۔(مد ظلہ العالی علی الانصاری والمنصوری، الراعین،والشاہ، والفقیر،والقریشی والشیخ والکباڑی والدلت وعلیکم وعلینا) نورانی صاحب کے چھوٹے بھائی صمدانی میاں پر تو سیادت کا گھمنڈ سر چڑھ کے بول رہا ہے۔جب کہ آن جناب کی علمی حیثیت اردو خوانی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔گذشتہ محرم کو ایک جلسے میں بادل ناخواستہ منبر پہ بیٹھنا پڑا۔جناب ترنم میں شعر پڑھ رہے ہیں
گر کروگے گستاخی سیدوں کی شان میں
اس طرح گاڑیں گے زندہ ڈھونڈتے رہ جاؤ گے
تعجب یہ نہیں کہ انہوں نے کبر و نخوت سے ملو برہمن وادی شعر پڑھا تعجب خیز امر تو یہ تھا کہ شودر ذاتی مولوی اور مرید نعرے پہ نعرہ دے رہے تھے۔
ان کا مشغلہ کیا ہے؟پیری مریدی اور نذرانہ بتورنے کے کے علاوہ قوم و ملت کے نام ایک بھی قابل ذکر کام ان کے کھاتے میں نہیں ہے مگر گھمنڈ دیکھیے مانو جنت و دوزخ کا فیصلہ انہی کے ہاتھوں ہونے والا ہے۔صاحبو! آخر دین میں ایسا مزاج کہاں ہے، کس نے لکھا ہے؟ ہندو دھرم کے بڑے بڑے برہمن بھی اس طرح نہیں بولتے جن کی مقدس مزاجی سے چڑھ کر اوب کر امبیڈکر نے علم بغاوت بلند کر دیا تھا۔مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ان کے مرید عقل و شعور سے کتنے لنگڑے لولہے ہیں کہ ایسے آدمی کو ناصرف خدائی کماندار خیال کرتے ہیں بلکہ یقین بھی رکھتے ہیں۔
یہ غور کرنے والی بات ہے کہ پچھلے پانچ دس سال کے اندر ہندوؤں کی اعلی ذات میں اس بات پر بڑی تشویش ظاہر کی گئی کہ اگر اسی طرح ہم لوگ خود کو مقدس اور دوسرے کو رذیل و خسیس سمجھتے رہیں تو پھر چھوٹی ذات والے لوگ کہیں دھرم پریورتن کر اسلام نہ اپنا لیں۔اس وجہ سے وہ لوگ اب بڑی شد و مد کے ساتھ ہندو یکتا کے نعرے دینے لگے۔ہندو ہندو بھائی بھائی پر زور دیا جانے لگا۔اب ہر منچ سے ہندو برادری واد، نسلی تفاوت اور ورن بھید بھاؤ کو ختم کرنے پر کھل کر بات ہونے لگی ہے۔
دوسری طرف اسلام کے متمول اور درگاہی مزاج والے لوگ جن کی گزر بسر ہی مریدین و متوسلین کے چندے و نذرانے پر ہے۔جن کے عیش و عشرت کے سارے سامان اندھ بھکت شیخ پٹھان،انصاری، منصوری،قریشی، راعین، کباڑی، فقیر برادری کی گاڑھی کمائی سے کیے جاتے ہیں۔جن کے بچوں کی اسکول فیس بھی کوئی چھوٹی ذات والے زید بکر خالد عمر بھر رہے ہیں ان پر برہمن واد کا شدید بخار چڑھا ہے۔ایسا بخار کہ منو مہارج کی منو اسمرتی میں بھی اس سے گھٹیا درجے کے برہمن واد کی ایسی توضیح نہیں ہے۔
اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ میں اس طرح کا برہمن ازم نہیں دیکھا گیا۔آخر کس حدیث سے، کس نص سے یہ خود کو ٹھیکیدار جنت و جہنم سمجھتے ہیں؟ کہاں حضور نے فرمایا کہ میری آل زانی ہو، شرابی ہو، جواری ہو، بدکردار ہو تب بھی اس کی تعظیم امت پر واجب ہے؟ ائمہ اربعہ کی کس کتاب کی کس عبارت سے ایسا بے ڈھنگاپن ظاہر ہے؟ کلام و عقائد کے کس امام نے ذات پات کی اس قدر درجہ بندی کر کے ہم جیسوں کو رذالت کے تحت الثری میں پھینک دیا،اور سادات کو عرش معلی کی مسند رفعت پر بٹھا دیا ہے؟اگر سیادت برہمن واد کی متبادل شے ہے تو پھر اسلام و ہندو ازم میں کیا فرق رہ جائے گا؟ یہی تھیوری تو ہندو برہمن کی ہے کہ ان کے عقائد کے مطابق برہمن ونش برہما(یعنی خدا) کے سر سے پیدا کیا گیا ہے اور شودر دلت یہ برہما کے پیر سے اس لیے دان دکشنا کا ادھیکار صرف برہمن کو ہے اور شودر ذاتی صرف سیوا غلامی کرنے کے لیے ہے۔
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
ایک سچی بات بتاؤں میں نے کچھ احباب کے کہنے پر سید مدنی میاں صاحب سے ارادت کا من بنا لیا تھا۔یہ سوچ کر کہ ایک بڑے عالم ہیں،فقیہ ہیں، نمازی ہیں،زیادہ پیری مریدی میں نہیں رہتے، کام سے کام رکھتے ہیں۔علمی و تحقیقی مشاغل میں مصروف شخصیت ہیں۔مگر اچانک ان کی بھی ایک ویڈیو کلپ دیکھی جس میں وہ بھی اسی طرح سیادت پر خطاب کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں سید اگر فاسق و فاجر بھی ہو تب بھی اس کی تعظیم واجب۔بس اس بات نے میرا من بالکل بدل گیا۔کیوں کہ میں ذات پات والی بھید بھاؤ سسٹم کو قبول نہیں کر پا رہا ہوں۔میں اعلی ادنی کی تفریق جھیل نہیں سکتا۔میں شودر وہ برہمن یہ مجھے منظور نہیں۔میں چاہتا ہوں کہ میرے سید کے قال و حال میں سیدالقوم خادمھم کی تصویر جھلکے۔اسے اپنی ذات پر گھمنڈ ذرا بھی نہ ہو۔اگر ایسا ہے تو سر پہ بٹھا لیا جائے۔تب ہم دلت شودر بننے کے لیے تیار ہیں ورنہ تفاخر نسبی کی بنیاد پر کھڑے کسی کے قصر اقبال و افتخار کو میں رتی بھر بھاو نہیں دیتا۔
میں راقم الحروف ایسے سارے فتووں کو رد کرتا ہوں جن میں دین کی برادرانہ تھیوری کو زک پہنچائی گئی ہے۔ایسے کسی بھی فتوے کو یکسر مسترد کرتا ہوں جہاں ذات پات کی لکیر کھینچی گئی ہے اور برہمن مزاج آل و اولاد کو ٹھیکیدار امت تسلیم کیا گیا ہے۔یہ کتنا مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ سیادت کی بنیاد پر لڑکی باز ہونے کے باوجود واجب التعظیم ٹھہریں اور ہم صغیرہ گناہ پر بھی راندۂ درگاہ گردانے جائیں۔آج اقبال کے اندر کا باغی مرید باہر آنا چاہتا ہے۔
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن