"وحدت تأثر” کیا ہے؟
از: ابوفہد ندوی
وحدت تاثر کو افسانے کے اجزائے ترکیبی میں ایک لازمی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ اورہراچھے افسانہ نگار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس عنصر کو پوری شدت اور آگہی کے ساتھ اپنے افسانے میں برتے تاکہ جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے وہ پورے تاثر کے ساتھ محسوس کیا جائے۔
"وحدت تأثر” کا لفظی مطلب ہوتاہے ایک ہی نوع کا تاثر۔ یعنی قاری کے ذہن پرکسی افسانے کی قرأت سے جو تاثرپیدا ہو وہ مختلف ا`لنوع اورمختلف الجہت نہ ہو۔ اگر کسی افسانے میں ایک مرکزی واقعے کے ساتھ ساتھ کئی اور بھی مختصر واقعات بیان ہوئے ہوں تووہ مختصر واقعات بھی قاری کے ذہن ودماغ پر اسی تاثرمیں اضافے اور وفور کا باعث ہوں جو مرکزی واقعے کا تاثر ہے۔ایسا نہ ہو کہ مرکزی واقعے کا تاثر کچھ اور ہو اور ذیلی واقعات کا تاثر کچھ اور۔ جیسے سورج مکھی کے پھول ہوتے ہیں، وہ اپنے حسن اورحجم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر اپنے رخ کے اعتبار سے باہم دگر متحد ہوتے ہیں۔ یعنی ہر پھول کا رخ سورج کی طرف ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی افسانے میں بیان ہونے والے مختلف واقعات اپنے مقصد، غایت اور تأثر کے اعتبارسے یک رخ ہونا چاہئیں۔ ریختہ ڈکشنری میں ‘وَحدَتِ تَاَثُّر’ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: "وہ وحدت جو کسی ادب پارے میں قاری یا ناظر کے ذہن پر صرف ایک تاثر چھوڑے تاکہ اس میں شدت اور گہرائی ہو، کسی ادبی تخلیق کا قلب و ذہن پر یکساں اثر” اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریر کے تمام عناصر ایک مرکزی تھیم یا مرکزی خیال پر ارتکاز کرتے ہوں اوراسے تقویت دیتے ہوں تاکہ ایک واضح، مربوط اور قلب ونگاہ میں جاں گزیں ہو جانے والے پیغام کی ترسیل ممکن ہوسکے۔
"وحدت تأثر” دراصل ایک ہُنر اور کَلا ہے، بالکل اسی نوعیت کی جس نوعیت کی کسی مضمون میں ادبیت ہوتی ہے اور انشاء پردازی ہوتی ہے، مضامین تو ادبیت اور انشاء پردازی کے بغیر بھی لکھے جاسکتے ہیں اور لکھے جاتے رہے ہیں، مگر جوقلم کار انشاء پرداز اوراس سے بھی آگے بڑھ کر صاحب اسلوب ہوتے ہیں وہ اپنے مضامین میں ان چیزوں کو احسن طریقے پر برتتے ہیں اورتحریر کو خوشنما اور دلنشیں بنانے میں کامیابی حاصل کرپاتے ہیں۔ وحدت تأثر کا استعمال بطورخاص افسانوں اور ڈراموں میں زیادہ کیا جاتا ہے اور بعض دوسری اصناف سخن میں بھی کسی نہ کسی حدتک ملحوظ رکھا جاتا ہے، جیسے خاکوں وغیرہ میں۔ یہ ہنر اگر یک موضوعی اور اکہرے بیانیے والے مضامین میں بھی برتا جائے توبعض حیثتوں سے ایسے مضامین کا اعتبار و وقار بھی بڑھ سکتا ہے۔
فارسی کا ایک شعر ہے اس کے توسط سے ’وحدت تأثر‘ کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے:
ہوا مخالف و شب تار، وبحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشی، وناخدا خفت است
ترجمہ: "ہوا مخالف ہے، رات انتہائی تاریک ہے اور سمندر میں طوفان خیز لہریں اٹھ رہی ہیں، پھر کشتی کا لنگر بھی ٹوٹا ہوا ہے اور ملاح بھی سویا ہوا ہے (یا بیمار ہے یا ندارد ہے)”
اس شعر میں کل پانچ وقوعوں کا ذکر ہے اور ہر وقوعہ دوسرے سے زیادہ ہولناکی کا مظہر ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ حالات کے مارے ہوئے ہوں، رات کا وقت ہو، ہوا طوفانی رفتار سے چل رہی ہو اور مخالف سمت میں چل رہی ہو، اس صورت حال میں آپ ایک کشتی میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر کشتی میں پناہ لینے کے بعد آپ کومعلوم ہوتا ہے کہ کشتی کا لنگر کھلا ہوا ہے، نہیں معلوم کہ یہ طوفانی ہوائیں اس ناپید کنار سمندر میں بادبانی کشتی کو کہاں لے جائیں، پھر اس پر طرہ یہ کہ کشتی کا ملاح بھی سویا ہوا ہے، اس کے لیے تو یہ روز روز کا تجربہ ہے اس لیے وہ بے فکر سویا ہوا ہے، یا بیمار پڑا ہوا ہے یا پھر موجود ہی نہیں ہے۔ اس ہولناک صورت حال میں آپ کے لیے ایک ملاح کا سہارا آخری سہارا تھا، سو وہ سہارا بھی ٹوٹ گیا۔
اسے بھی پڑھیں:کالم نگاری کی تعریف اور اصول و آداب
شخصی اور اجتماعی زندگی بھی کچھ ایسی ہی تو ہوتی ہے، آدمی زندگی بھر خود کو بے سہارا محسوس کرتا ہے اور بعض مواقع پر اس کا یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے، جب وہ کسی سہارے کی تلاش میں ہوتا ہے اور کوئی سہارا نہیں ملتا، آخر وہ تھک ہارکر دیوار کا سہارا لیتا ہے مگر دیوار ہی خود اس پر آ گرتی ہے۔ تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی سہارے ہیں سب کے سب کمزور سہارے ہیں، مکڑی کے جالے سے بھی کمزور، مگر وہ یہ سہارے حاصل کرنے کے لیے مجبور بھی تو ہے۔
اس پورے شعر میں جو پانچ تراکیب استعمال ہوئی ہیں یا جن پانچ وقوعوں کا ذکر ہے، ان میں سے ہر وقوعہ یا ترکیب حالات کی سنگینی اور ہولناکی کو ہی بتا رہی ہے۔ اگر کشتی کا لنگر کھلا ہوا نہ ہوتا تب بھی صبر آجاتا کہ کچھ دیر میں طوفان تھم جائے گا اور آپ کشتی سے محفوظ نکل آئیں گے یا پھر کم از کم ملاح موجود ہوتا یا سویا ہوا نہ ہوتا تب بھی کچھ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس ہولناک صورت حال سے اپنے تجربے، تدبیر اور ہنر مندیوں سے کشتی کو محفوظ رکھ پانے میں کامیاب ہو پائے گا۔ مگر کہیں سے کوئی امید نہیں۔ سارے راستے بند ہیں اور ہولناک حالات سے نکلنے کا کوئی آسرا اور سہارا نہیں۔
Leave a Reply