موسم سرما کی رنگینیاں
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
اکلوتے بھتیجے کی شادی میں جملہ اقارب بنگلور جمع ہوے، بعض مجھے دیکھنا چاہتے تھے ان کی خوشی المضاعف ہوئی، وطن میں سرد خیمہ نصب ہو گیا ہے، چھوٹی بہن ریوڑی اور اس قبیل کے سرمائی خوردنی تحفے لائی تھی، موسم کی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے لطف نہیں آیا، ذائقے موسمی ہیں اور علاقائی بھی، یا پھر ذہنی وتخیلاتی، بنگلور میں مونگ پھلی ہوتی ہے؛ مگر بخدا! کبھی نہیں کھائی، یہاں مونگ پھلی کی بے حرمتی نے جذبات مجروح کیے۔
دارالمدرسین منتقل ہونے سے قبل، دس سردیاں محلہ بڑ ضیاء الحق، کھرل گلی دیوبند میں گزاریں، ہر شب دروازے پر کراری مونگ پھلی کی صدا لہراتی اور جمیع اہل خانہ مرتب ویکسو ہوجاتے، اسے دانہ خوری کے قضیے کی طرح دیکھنا کم نظری ہے، مونگ پھلی سے شاد کام ہونا ایک روایت، تہذیب اور تاریخ ہے، اس کے جادو کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ صفائی پرست خاتون خانہ بھی اس فنکشن میں برابر حصہ لیتی ہے؛ جب کہ یہ جشن کچرے کے انبار پر منتج ہوتا ہے۔
کچرے سے یاد آیا کہ سالوں قبل دہلی سے دیوبند کے عزم پر پیسنجر ٹرین کا آپشن لیا، سردی شباب پر تھی، ٹرین ابھی خالی ہوئی تھی اور نئے مسافروں کا خیر مقدم کر رہی تھی، میں اندر گیا تو ٹرین کی سیٹیں غائب تھی، پیش رو سیاحوں نے "مونگ پھلی پارٹی” شراب وشباب کے رنگ میں کی تھی، ہوش وحواس میں تو چھلکے نیچے ڈالے جاتے ہیں، یہاں وہ سیٹوں کے کھردرے قالین کا نظارہ پیش کر رہے تھے، من جملۂ خاصان مونگ پھلی ہونے کی بنا پر ناگواری نہیں ہوئی اور اس کچرے کو بھی راستے بھر انجوائے کیا، "مونگ پھلی ذوق” کا حساس پہلو یہ ہے کہ بند اور ثابت مونگ پھلی ہی لی جائے، چھلا ہوا دانہ خریدنا، بدعت سیئہ، بد تہذیبی، نارسائی اور اس باب کے رنگ وکیف پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔
بچپن کی سردی زیادہ پر لطف تھی، آثار نمایاں ہوتے ہی چارپائیوں کا رپلیس منٹ ہوتا، ایک کمرے میں پرال بچھائی جاتی، پورے موسم وہی ایک خواب گاہ ٹھہرتی، ہم سب بہن بھائی ماں کے ساتھ اسی کمرے میں سوتے، والدہ کی عدم موجودگی میں بستر پر کرتب کرتے، قلابازیاں کھاتے، اچھل کود مچاتے، اس ریاضت میں پرال بکھر جاتی تو مار بھی کھاتے، وہ نیند بھر پور، گہری، سیر حاصل، شیریں اور گھوڑے بیچ نیند تھی، اب وہ خوابیدگی کہاں!
میں معین مدرسی کے بعد بنگلور آگیا تھا اور چھ سال یہیں برسر تدریس رہا، میرا ایک دوست میرے ترکِ وطن پر رنجیدہ تھا، وہ تجویزیں وضع کرتا، فلاں مدرسے میں پڑھا لو، فلاں ادارے والے فرش راہ ہیں، یہاں آجاؤ وہاں آجاؤ، میں دوران گفتگو بنگلور کے موسم کا ذکر کرتا، ایک روز اس کا ضبط ٹوٹ گیا اور اس نے راست کہا کہ تو بد نصیب ہے، یہ سردی اور گرمی بھی نصیب والوں کو ملتی ہے، میں نے اس درجے احساس برتری کی مثال نہیں دیکھی، اس کے اعتماد نے مجھے ایک لمحے کے لیے یوٹرن پر آمادہ کر دیا تھا، آج بھی اس کا لب ولہجہ یاد آتا ہے تو لا شعور کی باز گشت یہی دہراتی ہے کہ تو برگشتہ قسمت ہے اور وطن کی سردی بختاوروں کا تحفہ ہے۔
جاری۔۔۔۔۔