موبائل فون کے نقصانات اور ہمارے بچے
از: عبدالعلیم دیوگھری
زمانے کی روز افزوں ترقی نے ہمیں زندگی کے حقیقی لطف سے محروم کر دیا ہے، کبھی زندگی کو جیا جاتا تھا؛ مگر اب بس گزار دی جاتی ہے۔ ذرا چشمِ تصور کو وا کیجیے، ماضی کے دریچے میں جھانکیے اور اپنا بچپن یاد کیجیے، یاد کیجیے وہ معصوم شوخیاں، وہ شرارتیں اور شور و غل کے وہ ہنگامے جو گھر، آنگن اور گلی کوچوں میں زندگی کی رعنائی بکھیر دیتے تھے۔ بےفکری کی ان حسین ساعتوں کا تصور کیجیے جب ہم خاک اڑا کر فضا کو گرد آلود کرتے، کنچے کھیلتے، چھپن چھپائی میں ایک دوسرے کو ڈھونڈتے، بارش میں چھپ کر نہاتے، مٹی میں لت پت ہوکر بےساختہ قہقہے لگاتے۔ ذرا ان بلوری قدموں کی چاپ سننے کی کوشش کیجیے جو کاغذی کشتیوں کے تعاقب میں گردوں سے اٹ گئی ہے، مٹی کے بنائے گھروندوں کی دلکشی دیکھیے اور فنِ صناعی کی داد دیجیے۔ ذرا گلی نکڑ کے ان خاص مقامات کی بھی سیر کر آئیے جہاں بےہنگم و بےترتیب باتوں کا تسلسل نہ تھمتا تھا۔
بچپن کے یہ حسین پل اب کہانیوں کا حصہ بن چکے ہیں، آج کی نسلیں بچپن کی ان حقیقی اور قدرتی خوشیوں سے محروم ہو چکی ہیں، وہ بس موبائل کی برقی لہروں اور مصنوعی کھیلوں میں مگن رہنے لگی ہیں، گلی کوچوں میں اب خموشیوں کا پہرا ہے؛ کیوں کہ بچپن اب بند کمروں میں قید ہو چکا ہے۔
موبائل فون اور بچے
موبائل فون نے آج کی نسلوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے، اب یہی ان کے کھلونے ہیں۔
والدین کی مصروفیت اور اولاد کے تئیں ان کی بےفکری و لاپروائی کے نتیجے میں بچے موبائل فون کے عادی بن چکے ہیں، یہ ڈیجیٹل کھلونا جو بظاہر وقت گزاری اور تفریح کا سامان معلوم ہوتا ہے اپنے اندر بے شمار مفاسد رکھتا ہے، اس کی وجہ سے ہمارے بچے ذہنی تھکن، جسمانی کمزوری، اخلاقی و روحانی زوال اور انگنت نفسیاتی بیماریوں کا شکار بن رہے ہیں۔
یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے اس کو نظر انداز کرنا والدین کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس مضمون کے ذریعے ہم نے موبائل فون کے نقصانات، بچوں کے اس کی جانب مائل ہونے کی وجوہات اور اس ناسور سے اپنے نونہالوں کی حفاظت کے مؤثر طریقوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
بچوں پر موبائل کے نقصانات
لہذا سب سے پہلے ہم اس چیز کے نقصانات کو جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر موبائل سے ہمارے بچوں پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
توجہ کمزور ہو جانا
متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جو بچے زیادہ دیر تک موبائل فون کی اسکرین دیکھتے ہیں ان کی توجہ متاثر ہوتی ہے، یعنی وہ کسی کام پر اپنی کامل توجہ کے ارتکاز کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں، نتیجۃً تعلیم و تعلم، عبادات اور گھریلو ماحول میں انھیں دل نہیں لگتا ہے، نیز وہ چڑچڑاپن، بےصبری، غصہ اور ضد جیسی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ موبائل کے اسیر ہو جاتے ہیں، انھیں ہر آن اس بات کی طلب ہوتی ہے کہ کسی طرح موبائل ان کے دست گرفت میں آ جائے اور انھیں ان کی مطلوبہ ذہنی آسودگی میسر ہو جائے۔
نیند کی خرابی
موبائیل فون کے کثرتِ استعمال سے بچوں کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے؛ کیوں کہ موبائل فون کی اسکرین سے نکلنے والی نیلی روشنی نیند لانے والے ہارمونز کی پیداوار میں کمی کر دیتی ہے۔ نیز مسلسل ویڈیو گیمز کھیلنے یا دیگر سرگرمیاں موبائل پر انجام دینے کی وجہ سے وہ چیزیں ان کے دماغ میں چلتی رہتی ہیں، ان کا دماغ سوتے وقت بھی فعال رہتا ہے اور پُرسکون نہیں ہو پاتا ہے۔
حالاں کہ بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے قریبا نو گھنٹے کی نیند بےحد ضروری ہے۔
اسے بھی پڑھیں: اولاد کی تربیت کے کارگر اصول
سماجی تعلقات کمزور ہونا
موبائل فون کی وجہ سے غیر شعوری طور پر بچوں کے اندر خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کی صفت پیدا ہو جاتی ہے، ان کی دلچسپی کا دائرہ فقط اس بات تک محدود ہو جاتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں موبائل ہو اور وہ کسی گوشے میں بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہوتا رہے۔
رفتہ رفتہ ان کے معاشرتی تعلقات غیر مستحکم ہونا شروع ہو جاتے ہیں، حتی کہ والدین، بھائی بہن اور قریبی رشتہ داروں سے براہ راست بات چیت کرنے کی عادت بھی کھو دیتے ہیں، وہ کم گو، شرمیلے اور غصیلے بن جاتے ہیں۔ ٹیم ورک، سماجی میل جول اور دوستی وغیرہ سے وہ کترانا شروع کر دیتے ہیں۔
اب تو گھروں کا یہ حال ہو چکا ہے کہ ہر فرد موبائل کے ساتھ مشغول ہے، حتی کے کھانے کو بیٹھے ہیں تب بھی نگاہیں اسکرین کو تکتی رہتی ہیں، ایسے میں رشتوں کے اندر اعتماد، محبت اور باہمی گفتگو کا لطف کیسے باقی رہتا ہے؟
تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان
موبائل فون کے بےتحاشا استعمال سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا خون ہو جاتا ہے، ان کے اندر غور و فکر کرنے اور کچھ تخلیق کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے؛ کیوں کہ موبائل پر دلچسپی کے جو مواد موجود ہیں وہ پہلے سے تیار شدہ ہیں، بچہ بس اسے دیکھنے والا ہوتا ہے، اسے کسی قسم کی ذہن سوزی نہیں کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنے بچپن میں خود سے مٹی کا گھر بناتے تھے اور اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے، خود سے کاغذ کی کشتی بناتے اور اس سے لطف اٹھاتے تھے، جس کی وجہ سے تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی تھیں، مگر اب یہ چیزیں نہیں ہیں۔ اب تو بچوں کی قوت تخیل بھی ختم ہوتی جا رہی ہے، پہلے ہم خود سے کہانیاں گھڑتے اور اپنے دوستوں کو سناکر رعب جھاڑتے تھے۔
پہلے بچے مختلف چیزوں سے نئی نئی دلچسپ چیزیں بنانے کی کوشش کرتے تھے؛ مگر اب بچوں کی ساری ذہنی توانائی موبائل میں محصور ہوکر رہ گئی ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور قوت تخیل کا زوال ہو گیا ہے۔
اسے بھی پڑھیں: شوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی راہیں
جسم اور نظر کی کمزوری
موبائل کے زیادہ استعمال سے بچوں کا جسم بھی خاصا متاثر ہوتا ہے؛ کیوں کہ موبائل استعمال کرتے وقت بچے ایک ہی جگہ پڑے رہتے ہیں اور کسی قسم کی جسمانی سرگرمی انجام نہیں دیتے ہیں، جس سے وہ سست اور نڈھال بن جاتے ہیں، جسم کی صحیح نشو و نما کے لیے حرکت اور جسمانی سرگرمی والے کھیل انتہائی ضروری ہیں، سائنسی تحقیقات کے مطابق روزانہ ایک گھنٹے کی جسمانی سرگرمی بچوں کے لیے ضروری ہے۔
نیز مسلسل اسکرین پر نظر گاڑ کر رکھنے سے آنکھوں کے عضلات دباؤ کے شکار بنتے ہیں اور نظر دھندلی ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 70 فیصد بچے ایسے ہیں جن کا اسکرین ٹائم دو گھنٹے سے زیادہ ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے اندر ہر چار میں سے ایک بچے کو بچپن میں ہی چشمہ لگ جاتا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ موبائل بچوں کے لیے زہر ہلاہل کی مانند ہے کہ وہ نہ صرف ان کی جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؛ بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو زائل کرنے اور ان کو نفسیاتی مریض بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
موبائل کی طرف بچوں کے میلان کے اسباب
جہاں تک بات ان اسباب و عوامل کی ہے جن کی وجہ سے بچے موبائل کی طرف مائل ہوتے ہیں تو جان لینا چاہیے کہ بچے فطرتاً تجسس پسند ہوتے ہیں، یعنی نئی اور انوکھی چیزیں بڑی سرعت سے انھیں اپنی جانب مائل کرتی ہیں، موبائل کی چمکتی اسکرین، رنگین گرافکس اور حرکت کرتی تصویریں ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں، پھر جب بچہ موبائل کی اسکرین کو ٹچ کرتا ہے تو اسے کچھ حرکت کرتا دکھائی دیتا ہے جسے وہ بار بار آزمانا چاہتا ہے اور اس طرح وہ موبائل کے دام میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔
والدین کی توجہ بچوں کو حاصل نہ ہونا بھی بہت بڑا سبب ہے، والدین اگر بےتحاشا مصروف ہوں اور بچوں کے ساتھ وقت گزاری، بات چیت اور پیار و محبت کا وقت انھیں میسر نہ آئے تو ظاہر ہے بچہ اپنی فطری اور جذباتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دوسری راہ اپنانا شروع کر دےگا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ والدین خود بچوں کے سامنے موبائل استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بچوں میں فطری طور پر چیزوں کی نقل کرنے کی عادت ہوتی ہے، اگر گھر کے بڑے افراد خود موبائل میں مشغول رہیں گے تو لامحالہ بچے بھی اس کی نقل کریں گے۔
موبائل بڑی دلچسپ چیز ہے، اس کے اندر ایسے مواد کی بہتات ہے جو کبھی بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتا، نیز یہ مواد ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے کسی جسمانی مشقت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا، جس کی وجہ سے یہ بچوں کی تفریح کا آسان ذریعہ بن جاتا ہے۔
بعض والدین اپنے بچوں کو کسی کام کے انجام دینے پر موبائل کا لالچ دیتے ہیں، مثلا کہتے ہیں کہ فلاں کام تم کرو، یا اپنا سبق یاد کر لو یا ہوم ورک کر لو تو تمھیں موبائل استعمال کرنے کا موقع دیا جائےگا، یا اگر بچہ رونا شروع کر دے تو فوری طور پر اسے خاموش کرنے کے لیے موبائل تھما دیا جاتا ہے۔ غافل والدین کے اس طرز عمل سے بچے کو لگتا ہے کہ موبائل ایک انعام ہے اور وہ اس انعام کو حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتا رہتا ہے۔
بچوں کے اندر موبائل فون کی اس قدر دلچسپی کے پیچھے ماحول کا بھی گہرا اثر ہے، آج ہمارے سماج کا عمومی ماحول یہ بن چکا ہے کہ ہر گھر کا بچہ موبائل میں مصروف رہتا ہے، بچوں کے پاس کھلونے نہیں ہیں مگر موبائل ضرور ہے، کھیلنے کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہے، کھیلنے والے بچے بھی موجود نہیں ہیں، گھر کے افراد بھی موبائل کے نشے میں مخمور ہیں ایسے میں ایک بچہ بھلا موبائل کی طرف نہیں جھکےگا تو کہاں جائےگا؟ نیز جب وہ دوسروں کے بچوں کے ہاتھ میں موبائل دیکھتا ہے تو وہ ایک مسابقاتی طرز کا دباؤ محسوس کرتا ہے اور خود کے پاس موبائل نہ ہونے پر وہ خود کو سماج کا پسماندہ اور پچھڑا فرد سمجھنا شروع کر دیتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح موبائل حاصل کر لیا جائے تاکہ دوسرے بچوں کی وہ برابری کر سکے۔
موبائل کے فتنے سے بچوں کو کیسے بچائیں؟
مذکورہ بالا تمام مفاسد کے پیش نظر والدین کو چاہیے کہ وہ ہر ممکن اپنی اولاد کو موبائل کی فتنہ سامانی سے بچا کر رکھے، اس کے لیے ذیل میں چند کار آمد اور موثر نکات کی جانب رہنمائی کی جا رہی ہے۔
سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ والدین خود اپنی اولاد کے سامنے مثالی کردار پیش کریں، وہ خود رول ماڈل بنیں، بچوں کے سامنے موبائل کا بلاضرورت ہرگز استعمال نہ کریں کیوں کہ نصیحتیں تبھی کارآمد ہوتی ہیں جب انسان خود ان پر عمل پیرا ہو، اور والدین ہی سے بچے سیکھتے ہیں؛ لہذا والدین کا جو رویہ ہوگا بچے بھی اسی پر ڈھلیں گے۔
اگر آپ بچوں کو ڈانٹ کر کہیں گے کہ موبائل استعمال نہ کرو تو اس کا منفی اثر پڑےگا اور وہ ضدی ہو جائےگا، اس لیے بچوں کو موبائل استعمال کرنے سے منع کرنے کی بجائے اس کا متبادل پیش کریں، مثلا انھیں کوئی دماغی سرگرمی دیں، کہانیاں سنانے یا پڑھنے کو کہیں، ڈزائن بنانے یا اس میں رنگ بھرنے کو کہیں، جسمانی کھیلوں کی ترغیب دیں اور خود بھی ان کے ساتھ وقت گزاریں، موبائل چلانے پر ان کی حوصلہ شکنی کریں اور خارجی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر یا موبائل سے دور رہنے پر ان کی تعریف کریں اور ان کے حوصلے بڑھائیں۔
وقت کی قدر و قیمت کا انھیں احساس دلائیں، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں، سیرت اور صحابہ کے واقعات سناکر ان کے قلب و جگر کو منور کریں۔
کسی بھی کام کے انجام دینے پر انھیں بطور انعام موبائل ہرگز نہ دیں، بلکہ دیگر چیزوں سے ان کی حوصلہ افزائی کریں، نیز انھیں ایسے بچوں کی صحبت سے دور رکھیں جن کے پاس موبائل ہو یا جو موبائل کے دلدادہ ہوں اور ان کی ایسے افراد سے ملاقات کرائیں جو تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوں اور جنھوں نے کوئی قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہو۔
ان سب کے علاوہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فکرمندی کا مظاہرہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے روشن مستقبل کی ہمیشہ دعا کرتے رہیں۔
Leave a Reply