مروجہ قرآن خوانی کے پھیلتے برگ و بار
از: عبدالعلیم دیوگھری
امتِ حاضرہ کا سب کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں دینی شعور و آگہی کا فقدان ہے، جس کے زیرِ اثر مسلم معاشرے میں مختلف برائیوں نے اپنے برگ و بار پھیلا دیے ہیں، اور غضب یہ ہے کہ بہت سی برائیاں دین کے نام پر انجام دی جا رہی ہیں، ایسی برائیوں کی ایک طویل فہرست ہے، ہم سرِ دست ”مروجہ قرآنی خوانی“ کے حوالے سے چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یوں تو یہ موضوع کئی زاویوں سے تحقیق طلب ہے؛ مگر ہم فقط اس حوالے سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں کہ آیا میت کے ایصال ثواب کی خاطر قرآن خوانی کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور موجودہ دور میں مسلم معاشرے کے اندر قرآن خوانی کا جو طریقہ رائج ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
بےشک قرآن کریم نوع انسانی کے لیے سراپا رحمت و ہدایت اور مشعلِ راہ ہے، اس کا سطر سطر ہدایت آفریں اور حرف حرف رشد و راہبری کا آئینہ دار ہے، نزول قرآن کا مقصد اولیں بھی یہی ہے کہ قومیں اس سے رہ یاب ہوں اور اس کی ہدایت آفریں تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی کو گزاریں۔
نیز قرآن کریم کا پڑھنا پڑھانا بھی بےشمار اجر و ثواب کا حامل ہے۔
اسی طرح نصوص کی روشنی میں میت کے لیے ایصال ثواب کرنے کا نہ صرف یہ کہ جواز ثابت ہوتا ہے؛ بلکہ اس پر اجر و ثواب ملنے کا بھی ثبوت ہوتا ہے؛ لہذا تلاوت قرآن اور ایصال ثواب بجائے خود مستحسن اور کار ثواب ہیں؛ بلکہ میت کو ایصال ثواب کی غرض سے قرآن پڑھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے، چناں چہ حدیث شریف میں ہے:
إن لكل شيئ قلب، وقلب القرآن يسين فاقرءوها على موتاكم.
یعنی ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورہ یسین ہے؛ لہذا تم اسے اپنے مردوں پر پڑھا کرو!
اس روایت سے معلوم ہوا کہ میت کے ایصال ثواب کی خاطر قرآن کریم کی تلاوت فی نفسہ جائز اور
مستحسن ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن خوانی کے ذریعے ایصال ثواب جب شرعا جائز و مستحسن ہے تو مروجہ قرآن خوانی غیر شرعی اور ناجائز کیوں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مروجہ قرآن خوانی میں پیشہ ور علما اور جاہل عوام کی جانب سے ایسی تخصیصات و التزامات شامل کر دی گئی ہیں جن کا ثبوت کتاب و سنت اور قرن اول سے نہیں ملتا ہے۔
چناں چہ جب ہم زمینی سطح پر اس عمل کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس کے مفاسد نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ بالعموم کسی کے انتقال پر باضابطہ نماز جنازہ کے عین موقع پر قرآن خوانی کا دن کے تعین کے ساتھ اعلان کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر اس دن کی آمد پر قرآن خوانی اور خصوصی دعوت کا اہتمام ہوتا ہے، جب کہ تیجہ، چوتھا، دسواں، چالیسواں وغیرہ بدعات کے زمرے میں شامل ہیں۔
اسی طرح قرآن خوانی کے لیے مدارس کے طلبہ اور قرآن خواں حضرات کو مدعو کرنا اور مستقل طور پر کھانے پینے کا اہتمام کرنا بھی غیر شرعی امور میں داخل ہیں، بعض جگہوں پر قرآن خوانی کی اجرت بھی دی جاتی ہے، زبانی طور پر اگر چہ اجرت کا تعین نہیں ہوتا ہے؛ تاہم عرفا یا دلالۃ ہدیہ کے طور پر رقوم دیے جانے کا اہتمام ہوتا ہے، قرآن خوانی کی اس صورت میں پڑھنے والے کو کوئی ثواب نہیں ملتا، چناں چہ شرعا یہ صورت بھی ناجائز ہے۔
اسی طرح بعض مدارس میں بھی قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا ہے، جہاں لازمی طور پر اہل میت کی طرف سے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ صورت بھی جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں بھی یک گونہ اجرت کا شائبہ پایا جاتا ہے۔
قرآن خوانی کی بدترین صورت جو پیشہ ور مولویوں نے اختیار کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مدارس کے بچوں کی ٹولی ساتھ لیکر میت کے گھر میں حاضر ہوا جائے اور مہمانان رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ناموس کو امرا کے کی چوکھٹوں پہ خوار کیا جائے، پھر اختتام مجلس پر کھانے پینے، ناشتے یا ہدیہ (اجرت) وغیرہ دینے کا نظم کیا جائے۔
ہندوستان میں بہت سے چھوٹے ادارے ایسے ہیں جن کی اولین ترجیحات میں قرآن خوانی شامل ہے اور تعلیم و تعلم وہاں ثانوی درجے کی چیز بن کر رہ گئی ہے؛ چناں چہ ایسے مدارس میں پڑھانا لکھانا کم اور دعوتوں میں جانا وغیرہ زیادہ ہوتا ہے، انھیں اس بات کی قطعا کوئی پروا نہیں ہوتی کہ بچوں کی تعلیم اس کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے؛ کیوں تعلیم ان کی اولین ترجیح ہوتی ہی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا ذکر کردہ قرآن خوانی کی تمام صورتیں رائج الوقت ہیں اور ناجائز ہیں، اور اس کا ناجائز ہونا علما کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہے، تعیش پرست اور تساہل پسند علما کی ماتحتی میں اس عمل کو فروغ ملا ہے، حالاں کہ اس عمل کے نا جائز ہونے پر اہل سنت والجماعت کے متفقہ طور پر صریح فتاویٰ جات موجود ہیں؛ مگر اس کے باوجود علما کی جماعت اس حوالے سے علانیہ بات نہیں کرتی یا کرنا ہی نہیں چاہتی۔
مروجہ قرآن خوانی کی جڑیں معاشرے میں اس قدر راسخ ہو چکی ہیں کہ اب عوام قرآن خوانی ہی کو واحد ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھتے ہیں؛ گو کہ یہ ایصال ثواب اس سے بھی ہو جاتا ہے لیکن ایصال ثواب کے باب میں مالی عبادتیں زیادہ اہم اور سود مند ہوتی ہیں کہ اس میں مخلوق کا بھی فائدہ ہوتا ہے؛ لہذا لوگوں کا رجحان مالی عبادتوں کی طرف زیادہ ہونا چاہیے، اور اگر تلاوت قرآن کے ذریعے ثواب پہنچانا ہو تو بالکل اس طرز پر اسے انجام دیا جائے کہ اس میں غیر شرعی امور کی آمیزش نہ ہو، انتہائی خلوص آمیز اور انفرادی طور جس قدر ممکن ہو قرآن پڑھ کر میت کو اس کا ثواب پہنچا دیا جائے، یہی طریقہ صحابہ و تابعین اور صالحین کا ہے۔