قرآن کی حفاظت کا الہی نظام
از: عبدالعلیم دیوگھری
قرآن حکیم صحیفہِ خداوندی ہے، جو منبعِ علم و حکمت، سرچشمہِ رشد و ہدایت اور پیغام نجات و رحمت ہے، جو جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں منارۂ نور بن کر چمکا اور افقِ انسانیت کو ہدایت کی لازوال کرنوں سے نہال کر دیا۔ ایسی واحد کتاب جس کی فصاحت و بلاغت، زور بیان اور معنی آفرینی کے آگے عرب کے فصحا و بلغا کی عقلیں مبہوت و حیرت زدہ رہ گئیں، اور جس کے جمالِ اظہار، شیرینیِ گفتار اور قوت تاثیر کا یہ عالم تھا کہ ابوجہل جیسا معاند اسلام بھی پس دیوار کان لگائے اس کی آیتوں پر سر دھنتا اور محظوظ ہوتا تھا۔
حفاظت قرآن کا الہی وعدہ
یہ افضل ترین کتاب ایک معجزۂ جاوداں ہے، جس کا ایک اختصاصی و امتیازی وصف یہ ہے کہ اس کی حفاظت و صیانت کا وعدہ خود اللہ نے فرمایا ہے، جس کا ذکر سورہ حجر میں اس طور پر وارد ہے:
إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحفظون.
بےشک ہم نے الذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
گذشتہ انبیا پر جو کتب و صحائف نازل ہوئے تھے، انھیں یہ اختصاص حاصل نہیں تھا، نتیجۃً لوگوں نے ان کو غفلت و بدنیتی اور خواہش پرستی کی بنا پر تبدیل و تحریف کا نشانہ بنا ڈالا۔ آج قرآن حکیم اگر اپنی حقیقی شکل میں محفوظ ہے تو اس کے پیچھے اسی الہی وعدے کی کار فرمائی ہے۔
حفاظت قرآن کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ محض ایک ماورائی وعدہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کے پس پردہ ایسے دنیوی اسباب و تدابیر بھی موجود ہیں جو انسانی عقل کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیتے ہیں، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے علم و تدبیر اور قدرت کے حسین امتزاج سے قرآن کو محفوظ فرما دیا ہے۔
حفظ قرآن کے ذریعے حفاظتِ قرآن
حفاظت قرآن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا حیرت انگیز نظام تشکیل دیا ہے کہ اس کے نزول کے اول روز سے ہی اس کو سینوں میں نقش کرنے کا زبردست رجحان پیدا ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب مختلف حالات و مواقع کے اعتبار سے آیات قرآنیہ کا نزول ہوتا تو آپ اسے زبانی یاد کر لیتے؛ بلکہ اس حوالے سے آپ اتنے فکرمند تھے کہ عین نزول کے وقت ہی آیات کو دہرانے لگتے تھے؛ تاکہ وہ فورا ذہن کی تختیوں پر نقش ہو جائیں؛ چناں چہ آپ کی فکرمندی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ اس قدر عجلت سے کام نہ لیں، اللہ تعالیٰ آپ میں ایسا زبردست قوی حافظہ پیدا فرما دےگا کہ آپ قرآنی آیات کو نہیں بھولیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے حامل اور پہلے حافظ ہیں؛ چناں چہ آپ ہر سال ماہ رمضان کے موقع پر نازل شدہ آیتوں کا حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ دور فرمایا کرتے تھے، اور جس سال آپ کی وفات ہونے والی تھی اس سال آپ نے دو دفعہ قرآن کا دور فرمایا تھا۔
صحابہ کرام بھی بڑے اہتمام سے قرآن کریم کو حفظ کرتے تھے، اس معاملے میں وہ آپس میں مسابقت کرتے تھے، صحابہ کرام کی بہت بڑی اکثریت ایسی تھی جو حافظ قرآن تھی اور شب و روز قرآن کی تعلیم دیتی اور نوافل میں اس کی تلاوت کا اہتمام کرتی تھی۔
دور اول سے ہی قرآن کے لاتعداد حفاظ رہے ہیں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور خواتین ہر ایک کے دل میں حفظ قرآن کا شوق ہوتا اور وہ حفاظت قرآن کے اس الہی نظام کا حصہ بننے کو متاع سعادت اور ذریعۂ نجات سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔
خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھنے پڑھانے اور حفظ کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کے فضائل بھی بیان فرمائے ہیں، ان تمام امور کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں حفظ قرآن کا ایسا رجحان پیدا ہوا کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر اور مثال نہیں مل سکتی۔
یہ الہی نظام کس قدر حیرت آفریں ہے کہ اس کے الفاظ محض کاغذ کے اوراق میں ہی قید نہیں ہیں؛ بلکہ ہر قلب مومن کی دھڑکن بھی ہیں، صبح و شام منبر و محراب، مکتب و مدرسہ اور مسلم گھرانوں سے اس کتاب کی دلنشیں صداؤں کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جس کتاب کی قرات ہر گھڑی اور ہر لمحہ ہوتی ہو، پنج وقتہ نمازوں میں پڑھا جاتا ہو، ہزاروں لاکھوں نہیں؛ بلکہ کروڑوں زبانیں صبح و شام جس کی تلاوت میں رطب اللسان رہتی ہوں بھلا اس کتاب میں تحریف و تبدیل کی گنجائش کیسی باقی رہ سکتی ہے!
کتابت کے ذریعے حفاظتِ قرآن
قرآن کریم کی حفاظت کا انحصار صرف حفظ پر نہ تھا؛ گو کہ محفوظ ترین ذریعہ یہی ہے؛ تاہم روز اول سے قرآن کریم کی کتابت کا بھی اہتمام ہوتا تھا؛ چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نازل ہونے کے فورا بعد صحابہ کرام سے لکھوا لیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کریم پتھر کی سلوں، درخت کے پتوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھجور کی شاخوں وغیرہ پر لکھا جاتا رہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف فتنے رونما ہوئے جن کی بیخ کنی کے لیے بہت سے خوں ریز معرکے سر کرنے پڑے، ان معرکوں کے نیتجے میں بہت سے ایسے صحابہ کرام شہید ہو گئے جو پورے قرآن کے حافظ تھے۔ جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ قرآن کی حفاظت کے معاملے میں محض ایک ذریعے پر اکتفا کر لینا مناسب نہیں ہے، چناں چہ عہد صدیقی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشورے پر قدرے تامل کے بعد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قرآن کی منتشر آیات کو یکجا کرنے کا عمل انجام دیں؛ چناں چہ حضرت زید بن ثابت نے مختلف صحابہ کرام کے پاس موجود قرآن کے متفرق اجزا اور تمام منتشر آیات کو جمع کرنے کا کام شروع کیا، وہ خود بھی حافظ قرآن تھے چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے؛ لیکن انھوں نے انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیا، صفحات قلب سے صفحات قرطاس پر قرآن کو منتقل کرنے میں انھوں نے تین ذرائع کا سہارا لیا، یعنی اول وہ تمام اجزا فراہم کر لیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے تھے، پھر صحابہ کرام کے پاس جو اجزا تھے وہ بھی حاصل کر لیے، اس کے بعد حفاظ کرام سے بھی مدد لی، ان دنوں ذرائع سے بیک وقت کام لیکر آیات کی بابت کامل اذعان اور اطمینان حاصل ہو جانے کے بعد ان کو صحیفے میں نقل کیا۔
دور عثمانی میں صحابہ کرام کے مشورے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ طے کیا کہ اب قرآن کریم کے وہ نسخے ہی شائع کیے جائیں جو عہد صدیقی میں جمع کردہ مصحف سے نقل کیے گئے ہوں اور ان کے علاوہ دیگر لہجوں اور محاوروں میں لکھے ہوئے مصاحف کی اشاعت سے منع فرما دیا؛ تاکہ رسم الخط اور سورتوں کی ترتیب اور مسلمہ قراءتوں کے حوالے سے امت ایک متفق اور مسلم مصحف پر جمع ہو جائے۔ حضرت عثمان کا یہ کارنامہ اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے، ایسا کرکے آپ نے بہت سے متوقع فتنوں کا سد باب فرما دیا۔
اب امت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ قرآن کریم کو رسم عثمانی کے خلاف کسی اور طریقے پر لکھنا جائز نہیں ہے، آج دنیا بھر میں قرآن کے جتنے بھی نسخے موجود ہیں وہ اسی مصحف صدیقی کے عین مطابق ہیں جن کی نقلیں حضرت عثمان نے شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ اب رسم الخط کے اعتبار سے بھی قرآن اس قدر محفوظ ہو چکا ہے کہ افریقا کے کسی نسخۂ قرآن کا برصغیر کے کسی نسخۂ قرآن سے تقابل کیا جائے تو ادنی درجے کا بھی فرق نظر نہیں آ سکتا، یہ انسانی تاریخ کا سب سے قطعی الثبوت امر ہے کہ مسلمانوں کے پاس جو قرآن موجود ہے وہ نقطے اور شوشے کے ادنی فرق کے بغیر وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔
حاصل یہ ہے کہ جس طرح قرآن کا سینہ بہ سینہ منتقل ہونا متواتر ہے، اسی طرح اس کی کتابت بھی متواتر ہے اور ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ اس میں شک و شبہ کی ادنی گنجائش بھی باقی نہیں ہے۔
امت کا اجتماعی شعور بھی قرآن کی حفاظت کے معاملے میں درحقیقت اسی غیبی وعدے کا مظہر ہے، امت مسلمہ نے ہر دور میں قرآن کی حفاظت کو اپنا دینی، ایمانی اور علمی فریضہ سمجھا ہے، ہر دور میں علما، قرا، مفسرین، فقہا اور محدثین وغیرہ نے قرآنی علوم کی خدمت کو اپنا مقصد زندگی سمجھا ہے، انھوں نے قرآن کی مختلف شاخوں کی خدمت انجام دی، علم تجوید، علم تفسیر، علم رسم الخط جیسے تمام علوم کا مقصد قرآن کو ہر زاویے سے محفوظ رکھنا تھا۔
مستزاد یہ کہ جب کسی نے قرآن میں تحریف کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا تو مومنوں کی غیرت ایمانی نے تاریخ کے صفحات پر آگ لگا دی اور ملت کا ہر فرد اس پر قہر الٰہی کا حملہ بن کر ٹوٹا، تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح قرآن میں تحریفی کوششیں کرنے والوں کی ذلت و رسوائی اور ناکامی پر تاریخ نے مہر ثبت کر دی ہے۔
قرآن کریم ایک زندہ معجزہ ہے، جو تا قیامت انسانوں کی رہبری اور ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے؛ لہذا قیامت تک وہ بالکل محفوظ رہےگا، یہ اللہ کا وعدہ ہے اور محض غیبی وعدہ ہی نہیں ہے؛ بلکہ ایک زندہ تاریخی اور علمی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر اسباب و وسائل اور افراد و جماعت کو اس کار خیر پر لگا دیا ہے، یہ رب کائنات کے وعدے کی سچائی اور اس کی قدرت کاملہ کا دلنشیں مظہر ہے۔
Leave a Reply