قبر پر کتبہ لگانا کیسا ہے؟
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: «نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ القُبُورُ، وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ» هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ”. (ترمذی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: قبروں کو پختہ کرنے، ان پر لکھنے (کتبہ لگانے) ان پر تعمیر کرنے اور انھیں روندنے سے۔
شراح حدیث لکھتے ہیں کہ قبریں پختہ بنانا، ان پر کتبہ لگانا اور ان پر گنبد بنانا تعظیم کی وجہ سے ممنوع ہے اور ان کو روندنے کی ممانعت ان کی اہانت کی وجہ سے ہے، قبور کی نہ غایت درجہ تعظیم کرنی چاہئے نہ توہین، ان کے ساتھ معتدل معاملہ کرنا ضروری ہے۔
میرے نزدیک پختہ قبریں بنانے کی، ان پر کتبے لگانے کی اور ان پر گنبد بنانے کی ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قبرستان بار بار استعمال ہوتا ہے یا ہونا چاہئے ، پس اگر قبریں پکی بنائی جائیں گی اور ان پر کتبے لگائے جائیں گے تو وہ جگہ ریزرو ہوجائے گی ، اس کو دوبارہ استعمال کرنا جائز (ممکن) نہ ہوگا۔ اور اگر قبریں پختہ نہیں ہوں گی ، نہ ان پر کتبے ہوں گے تو ایک وقت کے بعد قبر کا نشان مٹ جائے گا اور وہ جگہ دوبارہ تدفین میں استعمال ہو سکے گی، مکہ معظم کا قبرستان حجون اور مدینہ منورہ کا قبرستان بقیع اسلام سے پہلے کے ہیں ان میں اربوں کھربوں انسان دفن ہو گئے اور آج بھی وفن ہور ہے ہیں وہاں طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف سے قبر یں بناتے چلے جاتے ہیں جب آخر تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر شروع سے قبریں بنانے لگتے ہیں، اس طرح وہ قبرستان بار بار استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہندوستان میں مسلمانوں کے جو پرانے شہر ہیں ان کے چاروں طرف قبرستان ہی قبرستان ہیں، کیونکہ جب قبریں پکی بن گئیں اور ان پر کتبہ لگ گیا تو اب وہ جگہ دوبارہ استعمال نہیں ہوسکتی؛ چنا نچہ قبرستان کے لئے دوسری جگہ خریدی جاتی ہے اور پرانے قبرستان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، ان میں جانور گھومتے ہیں ، لوگ پاخانہ کرتے ہیں ، کیا یہ بہتر ہے یا ان کو دوبارہ تدفین کے لئے استعمال کرنا ؟ پھر آبادی بہر حال بڑھے گی، کدھر بڑھے گی ؟ چاروں طرف بڑھے گی، اس وقت قبرستان میں سڑکیں بنیں گی ، لوگ نا جائز قبضے کر کے مکانات بنائیں گے اور مُردوں کی جو تو ہین ممکن ہے وہ ہوگی، پس کیا یہ بہترنہیں ہے کہ ایک قبرستان بار بار استعمال ہوتا کہ وہاں آمد ورفت رہے اور اس کی حفاظت ممکن ہو، مگر ہندوستان کا مسلمان تو سمجھتاہی نہیں ، اس کو سب کچھ گوارہ ہے مگر دوبارہ قبرستان کا استعمال اس کے گلے نہیں اترتا۔ اللہ تعالی سمجھ بوجھ عطا فرما ئیں ( آمین )
فائدہ: لوگ قبروں پر کتبہ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ اس کا امت میں تعامل ہے اور فقہ کی کتابوں میں اس کو جائز لکھا ہے کہ بڑے آدمی کی قبر پر کتبہ لگا سکتے ہیں، اس سلسلہ میں جاننا چاہئے کہ "العرف الشذی” میں حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کا قول ہے کہ لوگ قبروں پر کتبے لگاتے ہیں اور حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، پس جو نیا طریقہ شروع ہوا ہے اس میں جواز کی کوئی دلیل نہیں، یعنی تعامل اس وقت حجت ہوتا ہے جب وہ نص کے خلاف نہ ہو، جیسے سود اور شراب کا بھی تعامل ہو گیا ہے مگر وہ نص کے خلاف ہے اس لئے وہ حجت نہیں، اسی طرح جب کتبے لگانے کی ممانعت کے سلسلہ میں اعلی درجہ کی صحیح حدیث موجود ہے تو تعامل کیسے حجت ہو سکتا ہے؟ اور بڑا آدمی کون ہے یہ کیسے طے کیا جائے گا۔ یعنی اس کا معیار کیا ہوگا؟ ہر شخص کے نزدیک اس کا مورث بڑا آدمی ہے، چنانچہ ہرشخص کتبہ لگاتا ہے بلکہ بعض تو صرف اس لئے کتبہ لگاتے ہیں کہ جگہ ریز رو ہو جائے اور دوسری مرتبہ استعمال نہ ہو۔
رہا فقہی جزئیہ تو ہماری کتب فقہ میں بہت سی ایسی جزئیات ہیں جن پر ہم اس لئے فتوی نہیں دیتے کہ یا تو ان کا کچھ ثبوت نہیں یا وہ نص کے خلاف ہیں جیسے: تثویب کا تذکرہ کتب فقہ میں ہے اور نمک سے کھانا شروع کرنے کا تذکرہ بھی شامی میں ہے؛ مگر اس پر ہم اس لئے فتوی نہیں دیتے کہ ان کا کچھ ثبوت نہیں، اسی طرح قبر پر پھول رکھنے کا تذکرہ بھی شامی میں ہے مگر اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں، اس لئے اس کو بدعت کہتے ہیں، اسی طرح کتبہ کا جز ئیہ ا گرچہ موجود ہے مگر وہ اس نص صریح کے خلاف ہے اس لئے اس پر نہ فتوی دینا چاہئے اور نہ اس پر عمل کرنا چاہئے ، آج مسلمانوں کے قبرستان میں جا کر دیکھیں، عیسائیوں کے قبرستان اور مسلمانوں کے قبرستان میں کچھ فرق نہیں رہا، یہ اس حدیث پرعمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے، اللہ تعالی مسلمانوں کو سمجھ عطافرمائیں اور حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطافرما ئیں (آمین)
(تحفۃ الالمعی: 3/ 463)
فائدہ: اب لوگوں میں زیارت قبور کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے، سال کا سال گذر جاتا ہے اور گور غریباں میں کوئی نہیں جاتا، یہ بریلویوں کے ساتھ اختلاف کا رد عمل ہے، لوگوں نے ایسا سمجھ لیا ہے کہ ہم دیو بندیوں کو قبرستان بالکل نہیں جانا چاہئے یہ صالح ذہنیت نہیں ہے، زیارت قبور تو مامور بہ ہے، اس میں اموات کا بڑا فائدہ ہے اور زندوں کا بھی فائدہ ہے، اپنی موت یاد آتی ہے اور دنیا سے دل اکھڑتا ہے، پس گاہ بہ گاہ عام قبرستان میں جانا چاہئے اس کی طرف سے غفلت ٹھیک نہیں۔
اور یہ جو بزرگوں کی قبروں پر جانے کا سلسلہ ہے یہ بیشک جاری ہے، بلکہ دن بدن بڑھتا جارہاہے ؛ مگر یہ دیو بندیت نہیں ہے، بریلویت ہے، یہی سلسلہ بڑھ کر قبر پرستی کی شکل اختیار کرے گا، پھر اس زیارت میں زندوں کا کوئی فائدہ نہیں، اولیاء کی قبور پر جا کر اپنی موت کو کوئی یاد نہیں کرتا، یہ مقصد تو گور غریباں (عام قبرستان) میں جا کر پورا ہوتا ہے پس ہر مہینہ کم از کم ایک مرتبہ زیارت قبور کے لئے جانا چاہئے۔ واللہ الموفق
(تحفۃ الالمعی: 3/ 466)
کسی ملت پر جب زمانہ دراز گذر جاتا ہے تو وہ اپنے ڈگر سے ہٹتی ہے، آج سے تقریبا تیس سال پہلے حضرت اقدس مولا نا محمد منظور نعمانی قدس سرہ سے میں نے بر اہ راست سنا ہے، آپ بریلویت کی رگ رگ سے واقف تھے، انھوں نے الفرقان شروع میں بریلی ہی سے نکالا تھا، انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ اب دیوبند اور بریلی میں ایک بالشت کا فاصلہ رہ گیا ہے، یعنی بریلی دیو بند کے قریب نہیں آیا وہ اپنے منہاج سے ایک انچ نہیں ہٹا، دیو بند ہٹ کر ان کے قریب جا پہنچا ہے، اس کی بے شمار مثالیں ہیں، میں چند ذکر کرتا ہوں:
دیوبندیت کا امتیاز انبیاء اولیاء اور ان کی قبور کو صحیح مقام دینا ہے، ان کے بارے میں غلو سے بچنا ہے؛ مگر اب ہم بھی اولیاء کی قبور کے ساتھ وہی معاملہ کرنے لگے ہیں جن کو بدعات کے دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اکابر کی قبروں پر کتبوں کا رواج عام ہو گیا ہے جبکہ ترمذی شریف میں حسن صحیح (درجے کی) حدیث ہے، اس میں قبروں پر لکھنے سے منع کیا گیا ہے، ہاں یہ جزئیہ فقہ میں ضرور ہے کہ بڑوں کی قبر پر لکھ سکتے ہیں، مگر بڑا کون ہے؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ پس ماندگان کے نزدیک تو ان کا مرحوم بڑا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ نہ مقبرہ قاسمی میں کوئی کتبہ تھا، نہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کی قبر پر ، نہ حضرت تھانوی قدس سرہ کی قبر پر ؛ مگر اب مقبرہ قاسمی میں ہم جاتے ہیں تو عیسائیوں کے قبرستان کا سماں نظر آتا ہے۔
لقد أوصى الإمام (محمد قاسم النانوتوي) أولاده بدفنه في مقبرة عامة، وبعد وفاته اشترى الطبيب المشهور مشتاق أحمد الديوبندي قطعة أرض في "ديوبند”، وجعلها وقفا لله لدفن موتى المسلمين بهذه المناسبة، في هذه الأرض أعد قبره، وبعد صلاة العصر شيعت الجنازة ووصلت إلى فناء الجامعة، ثم صلى عليه الإمام الرباني رشيد أحمد الكنكوهي قبل صلاة المغرب ودفن في المقبرة العامة المعروفة بالمقبرة القاسمية. (الإمام الأكبر محمد قاسم النانوتوي:286)
ترجمہ: حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد انھیں عام قبرستان میں دفن کیا جائے، حضرت کی وفات کے بعد معروف طبیب مشتاق احمد دیوبندی نے دیوبند میں تھوڑی سی زمین خریدی اور موقع کی مناسبت سے اسے (عام) مسلمانوں کی تدفین کے لیے وقف کر دیا ۔یہیں پر ان (حضرت نانوتوی) کی قبر تیار کی گئی ۔ نماز عصر کے بعد جنازہ دارالعلوم کے احاطے میں لایا گیا؛ جہاں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے مغرب سے قبل نماز جنازہ پڑھائی اور "عام قبرستان میں تدفین ہوئی جو اب مزار قاسمی کے نام سے معروف ہے”۔
اسٹیشن سے مزار کا فاصلہ ہی کتنا۔ پورے دو فرلانگ بھی تو نہیں، اور مزار ؟ آہ مزار ! نہ کوئی بلند گنبد، نہ کوئی کلس دار قبہ، نہ چار دیواریی، نہ آستانہ، نہ جنگلہ نہ کٹہرا۔ ایک اوسط درجہ کی وسعت کا باغ۔ ایک سمت میں ایک مختصر پر فضا عمارت وسط باغ میں چند گز مربع کا ایک مسطح تختہ اور وہی اللہ کے اس شیر کی خواب گاه، نہ شامیانہ، نہ چھت ، صرف آسمان کی کھلی ہوئی چھت کے نیچے ایک نیچی سی کچی تربت، سادگی کی تصویر ، صاحب قبر کی بے نفسی کا آئینہ ، نہ لوح نہ کتبہ ، نہ پھول نہ چادر۔ چند قدم کے فاصلہ پر وصل بلگرامی مرحوم اور دوسرے مخلصین، پیشوائی کے شوق میں پہلے ہی سے پہنچے ہوئے ، شیخ کی قبر ان سب قبروں سے بھی پست ، زندگی میں بھی تو اپنے کو اپنے متوسلین سے پیچھے رکھتے تھے۔(حکیم الامت نقوش وتاثرات/ 543)
انتخاب وترتیب: عبداللہ ممتاز قاسمی