علمی انحطاط، ذمہ دار کون؟ اسباب کیا ؟
از: محمد زبیر
بلا شبہ دینی مدارس اسلام کے قَلعے ہیں اور دین کے تمام شعبوں کے لیے رجالِ کار کی فراہمی اور دینی علوم کے اپنی اصل شکل میں محفوظ رہنے اور ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہونے میں دینی مدارس کا کردار عالم آشکار ہے۔
دنیا طلبی و خدا فراموشی کے اس دور میں جبکہ دین دار سمجھے اور کہلائے جانے والوں کی اکثریت بھی سیم وزر کی چکا چوند سے متاثر ہو کر مال و متاع دنیا ہی کو اپنا مطمحِ نظر اور منتہائے مقصود بنا چکی ہے اور ان کی فکر وعمل کی ساری صلاحیتیں دنیا کے خزف ریزوں کو جمع کرنے میں صرف ہورہی ہیں ، خدا کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کی سوچ کا محور اور فکر کا مرکز علومِ دینیہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ طبقہ ہے جس نے اپنی عمر عزیز کا وہ حصہ جس میں لوگ روشن مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہیں، دینی علوم کی تحصیل اور قرآن وحدیث کو سمجھنے میں گزارا ہوتا ہے اور زندگی کا وہ حصہ جس میں مستقبل کے سہانےخوابوں کو تعبیر دی جاتی ہے، دینی علوم کی تعلیم و تدریس میں بسر کر دیتا ہے۔ ضروریات ان کی بھی ہوتی ہیں، خواہشات ان کے دلوں میں بھی مچلتی ہیں، مہنگائی انہیں بھی متاثر کرتی ہے اور مستقبل کے اندیشے انہیں بھی پریشان کرتے ہیں لیکن بایں ہمہ یہ طبقہ اپنی ضروریات کو تَج کر خواہشات کو پامال کر کے اور مہنگائی اور اندیشۂ فردا کی ساری پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتا ہے اور یوں یہ طبقہ اپنا آج امت کے مستقبل پر قربان کر دیتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ساری تگ و دَو اور قربانیاں کس لیے ہیں؟ وہ کون سا جذبہ ہے جس تحت طلبہ اپنی جوانیاں حصولِ علم کی راہ میں لٹا دیتے ہیں؟ وہ کون سی قوت ہے جو ادھیڑ عمر اور بوڑھے اساتذہ کو کئی کئی گھنٹے مطالعہ کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ اور وہ کون سا مقصد ہے جس کے لیے اربابِ مدارس اپنی عزت و وقار کی پروا نہ کرتے ہوئے لوگوں سے چندہ جمع کرتے ہیں؟
ظاہر ہے کہ اس ساری تگ و دو کا مقصد ذی استعداد اور با صلاحیت علمائے ربانیّین تیار کرنا ہے۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے مدارس واقعی ذی استعداد، احوالِ زمانہ سے باخبر، امت کو در پیش مسائل کا ادراک کرنے اور ان کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے علمائے ربانیّین تیار کر پارہے ہیں؟ افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے!
علوم وفنون میں مجتہدانہ بصیرت، قرآن وحدیث کی نصوص کی عصری تطبیق ، جدید مسائل کی فقہی تکییف ، الحادِ جدید سمیت دیگر نئے فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے درکار علمی استعداد اور ماضی کی علمی تُراث سے براہ راست اخذ و استفادے کی صلاحیت تو در کنار ہمارے بہت سے فضلائے کرام درست عبارت پڑھنے پر بھی قادر نہیں ہوتے۔
تجربہ شاہد ہے کہ سوڈیڑھ سو کی جماعت میں اعراب کی مکمل رعایت کر کے عبارت خوانی کرنے والے دس طلبہ بھی بمشکل ملتے ہیں اور یہ ہم تحتاتی درجات کی بات نہیں کر رہے بلکہ موقوف علیہ اور دورہ حدیث شریف پڑھنے والے طلبہ کی یہ صورت حال ہے کہ اگر انہیں حدیث شریف کی مُعرَّب کتاب کے بجائے مُعرّٰی کتاب کو سامنے رکھ کر عبارت پڑھنے کا پابند بنایا جائے تو سو ڈیڑھ سو میں سے دس طالب علم بھی شاید ہی درست عبارت پڑھ سکیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے تک کم از کم اتنا ضرور تھا کہ ہر جماعت میں چند طلبہ ایسے موجود ہوتے تھے جن کے متعلق اساتذہ کرام کو یہ اعتماد ہوتا تھا کہ وہ منصبِ تدریس کے اہل ہیں اور انہیں درسِ نظامی کی کسی بھی کتاب کی تدریس کی ذمہ داری دی جائے تو یہ اسے کما حقہ پڑھا لیں گے، مگر اب اس حوالے سے جو صورت حال ہے وہ انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ بسا اوقات تو پوری کی پوری جماعت میں ایک طالب علم بھی ایسا نہیں ہوتا جس کی علمی استعداد اور تدریسی قابلیت پر اساتذہ مکمل اعتماد کرسکیں۔ ہم ماضی بعید کی بات نہیں کرتے ، ہمارے زمانۂ طالب علمی میں بھی ہمارے مدارس کا تعلیمی معیار اتنا بلند تھا کہ حضرات اساتذہ کرام بعض طلبہ کے متعلق یہ پیشینگوئی کیا کرتے تھے کہ فلاں فلاں طالب علم میں ملکہ تفہیم ایسا ہے کہ وہ عمدہ مدرّس ثابت ہو سکتا ہے، مگر خدا رحم فرمائے ، اب تو ” الناسُ كابل ماةٍ، لا تكاد تجد فيها راحلةً”(بخاری) کے نبوی الفاظ محسوس صورت میں مُشاہَد ہو رہے ہیں کہ سو اونٹ ہیں مگر سواری کے قابل کوئی ایک بھی نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم غیر جانبداری کے ساتھ اس صورت حال کا جائزہ لیں اور اُن اسباب و محرکات اور وجوہ وعوامل کی نشاندہی کریں جن کی وجہ سے ہمارے مدارس کا معیارِتعلیم یوماً فیوماًحضیضِ انحطاط میں گرتا چلا جا رہا ہے۔
کسی بھی تعلیمی ادارے کی طرح دینی مدارس کے بنیادی ارکان بھی تین ہیں:
(۱) طلبہ (۲)اساتذه (۳) انتظامیہ
اگر یہ تینوں فریق اپنے اپنے فرائضِ مفوّضہ احساس ذمہ داری اور خدا خوفی کے ساتھ سر انجام دے رہے ہوں تو اس کے نتیجے میں معیارِ تعلیم بلند ہوتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک فریق بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت کا مرتکب ہونے لگے تو نتیجہ وہی بر آمد ہوتا ہے جو ہم دیکھ ر ہے ہیں۔
اس وقت دینی مدارس کی عمومی صورت حال یہ ہے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ پر مشتمل مُثلّث کے تینوں زاویے کہیں نہ کہیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کو تاہی کر رہے ہیں، لہذا موجودہ ابتر تعلیمی صورت حال کی ذمہ داری کسی نہ کسی درجے میں ان تینوں فریقوں پر عائد ہوتی ہے۔
سطور بالا میں ہم نے جو عمومی صورت حال کا لفظ استعمال کیا ہے، یہ” عام مخصوص عنہ البعض“ ہے اس لیے کہ ایسے مدارس بھی یقینا موجود ہیں جن کے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ میں سے ہر ایک اپنا اپنا کام بہ حسن و خوبی کر رہا ہے اور ایسے اداروں ہی کی وجہ سے مدارس کی آبرو قائم ہے، اللہ تعالی ان سے اپنے دین کی حفاظت واشاعت کا کام لے رہے ہیں اور عوام، عالمی قوتوں اور ان کے مقامی سہولت کاروں کی طرف سے مدارس کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈے کےباوجود ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔ تاہم عمومی صورت حال بہر حال وہی ہے جو ما قبل میں اجمالاً مرقوم ہو چکی ہے۔
اور اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ طلبہ اس طرح ذمہ دار ہیں کہ ان میں حصولِ علم کا وہ جذبہ باقی نہیں رہا جو مطلوب ہے، مطالعے کا وہ ذوق مفقود ہے جس سے علمی رسوخ پیدا ہوتا ہے، تکرار کا وہ شوق عنقا ہے جو تدریسی ملکہ میں نکھار لاتا ہے علم ان کے لیے اھم المشاغل نہیں رہا اور اساتذہ، کتب،مدرسہ اور دیگر آلات و وسائلِ علم کا ادب و احترام معدوم ہو ا جا رہا ہے۔
ہمیں اساتذہ کرام یہ بتلایا کرتے تھے کہ” العلمُ لا يُعطيك بعضَه حتى تُعطيَه کلَّک” یعنی تم اپنی فکر و نظر کی جملہ صلاحتیں حصولِ علم کی راہ میں لگاؤ گے، تب علم اپنا کچھ حصہ تم پر منکشف کرے گا۔ لیکن آج کے طلبہ کی ترجیحات میں یوں لگتا ہے کہ علم شامل ہی نہیں ہے، بھلا ایسے میں علم جیسا غیّور مطلوب کیونکر ہاتھ آ سکتا ہے؟
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہ کا مشہور فرمان ہے کہ اگر کوئی طالب علم تین کاموں کا التزام کرلے (1) سبق سے قبل مطالعہ کرے (۲) کامل توجہ اور یکسوئی سے سبق پڑھے (۳) سبق پڑھنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ اپنی زبان سے اس کا تلفظ کر لے، تو وہ ذی استعداد عالم بن سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت کا یہ ملفوظ ایک نسخۂ کیمیا ہے جسے عمل میں لا کر طلبہ کرام بغیر کسی نا قابل تحمّل مشقت کے بلند ترین علمی مدارج تک رسائی کے لیے درکار کتاب فہمی کی استعداد اور تدریسی لیاقت اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کل مطالعے کی جگہ موبائل نہیں نے لے لی ہے، کامل یکسوئی اور توجہ سے سبق سننا تو دُور کی بات ہے، سبق میں جسمانی طور پر طلبہ کو حاضر کرنے کے لیے اساتذہ کو کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں یہ اساتذہ وطلبہ دونوں جانتے ہیں اور رہی بات تکرار کی تو اس کے لیے مختص وقت لغو و لا یعنی کی نظر ہو جاتا ہے الا ماشاء اللہ!
اور اساتذہ اس طرح ذمہ دار ہیں کہ طلبہ کے لیے اُسوہ اور نمونہ اساتذہ ہی ہوا کرتے ہیں۔ طلبہ نصاب سے نہیں بلکہ اساتذہ کے طرزِ عمل اور رویّوں سے سیکھتے ہیں
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی، آدمی بناتے ہیں
لیکن آج کے دور میں مَردُم ساز اور آدمی گَر اساتذہ ہمارے مدارس کے ماحول میں بھی نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ ایسے اساتذہ جو طلبہ کے لیے اپنی صُلبی اولاد کے مانند فکر مند ہوں،راتوں کو اٹھ کر ان کی علمی وعملی ترقی کے لیے اللہ تعالی کے حضور دست دعا دراز کرتے ہوں اور ان کی ناکامی کو اپنی نا کامی تصور کرتے ہوں، آخر کتنے ہیں؟
اگر استاذ ابنِ حجر رح جیسا ہو تو اللہ تعالی حافظ سخاوی رح جیسا شا گر د عطا کرتے ہیں، استاذ ابنِ تیمیہ رح ہو تو اس کی تربیت سے ابنِ قیّم جیسا تلمیذ پیدا ہوتا ہے۔ دور کیوں جائیں، استاذ شیخ الہند رح جیسا جوہری ہو تو اس کی درس گاہ میں حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رح، امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رح، مفتی اعظم ہند مولانا کفایت اللہ دہلوی رح اور شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ہے جیسے ہیرے تراشے جاتے ہیں اور اگر استاذ ایسا ہو جسے اپنے فن میں مہارت اور زیر درس کتاب کے مضامین پر عبور ہی نہ ہو تو بھلا یہ توقُّع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ اس کی تعلیم کے نتیجے میں ذی استعداد طلبہ تیار ہوں گے؟
اگر کوئی استاذ سبق کا مطالعہ و تیاری پہلے سے کر کے آنے کے بجائے درس گاہ میں آنے اور سبق کا وقت شروع ہونے کے بعد حاشیے کی مدد سے سبق حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جو وقت بچ جاتا ہے اس میں سے بھی آدھا وقت اپنے ذاتی فضائل و مناقب اور اوصاف و کمالات بیان کرنے میں، ساتھی اساتذہ کی غیبت و بدگوئی میں، انتظامیہ پرطنز و تعریض کرنے میں یا ایران توران کی فضولیات میں ضائع کرتا ہے تو بھلا وہ سبق کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے؟
ایک مدرسے میں صَرف پڑھانے والے استاذ نے پورے تعلیمی سال میں صحیح کے ابواب بھی بمشکل پورے کرائے تھے، اب خود سوچیے کہ ایسے اساتذہ سے پڑھنے والے طلبہ میں استعداد وصلاحیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے ؟
ہمارے زمانہ طالب علمی میں یہ بات بطور ایک لطیفے کے بیان کی جاتی تھی کہ پہلی سہ ماہی میں استاذ اور تلامذہ و دوں کو کتاب سمجھ آرہی ہوتی ہے، دوسری سہ ماہی میں استاذ تو کتاب سمجھ رہا ہوتا ہے مگر اس کی تقریر طلبہ کے سروں کے اوپر سے گزرتی ہے اور آخری سہ ماہی میں استاذ کو پتا ہوتا ہے نہ شاگردوں کو،مگراب شاید یہ لطیفہ،حقیقہ بن چکا ہے کیونکہ چند سال قبل کسی مدرسہ کے ایک طالب علم بتلا رہے تھے کہ ہمارے ہاں شرح الوقایہ کے ایک گھنٹے میں پچیس تا تیس صفحات یومیہ پڑھا کر اسے ختم کیا گیا ہے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ اتنی زیادہ مقدار ایک گھنٹے میں کیسے پڑھائی جا سکتی ہے؟ تو جواب ملا کہ صرف ”متن کا ترجمہ ( بلا تشریح) کرایا گیا اور شرح کی محض عبارت خوانی ہوئی۔ فالي الله المشتكى!
تعلیمی سال کے ابتدائی ایام میں تطویل لا طائل تحتہ پر مشتمل تقریریں کرنا اور پھر مقدار خواندگی کا پورا نہ کرنا بھی ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے جس پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔ مندرجہ سابق امور کے علاوہ دیگر بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں اس مقام پر زیرِ بحث لایا جاسکتا ہے، لیکن طوالت کے خطرے کے پیش نظر بس اتنا لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ استاذ کو یہ حقیقت ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ تدریس کوئی پیشہ اور ملازمت نہیں بلکہ کارِ نبوت کی نیابت ہے اور مدرس اللہ تعالٰی کا خلیفہ اور رسول اللہ اللہ کا نائب بن کر منصبِ تدریس پر بیٹھتا ہے، یہ منصب جس قدر اعلیٰ و ارفع ہے اسی قدر نازک اور حساس بھی ہے۔
اور جہاں تک انتظامیہ کی بات ہے تو وہ اس طرح ذمہ دار ہے کہ بعض مدارس میں انتظامیہ کی تمام تر توجہ تکثیرِ چندا پر ہوتی ہے اور علمی معیار میں بہتری سرے سے ان کے مقاصد میں شامل ہی نہیں ہوتی۔ بعض مدارس میں تکثیرِ سواد کو مطلوب بنا کر ہر درخواست دہندہ کو داخلہ دے دینے کا چلن عام ہے، داخلہ امتحان کا تصور تک نہیں ، اور اگر امتحان ہوتا بھی ہے تو محض برائے نام ۔ اس تکثیرِ سواد سے مقصود بھی دراصل یہی ہوتا ہے کہ جتنے طلبہ زیادہ ہوں گے اتنا چندا ز یادہ جمع ہوگا۔ گویا محض چندا ہی مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔ تعلیمی معیار بھلے پست سے پست ہی کیوں نہ ہوتا چلا جائے ۔ اگر کوئی ادارہ اپناتعلیمی نظام بہتر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ وہ اپنا دا خلے کا نظام بہتر اور کڑا مقرر کرے اورصرف ایسے طلبہ کو داخلہ دے جن میں علمِ دین کے تحمّل کی اہلیّت ہو۔
نااہل کو علم دین سکھانے کے متعلق حدیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہے "واضعُ العلمِ عند غير اهله كمقلّد الخنا زيرِ الجوهرَ واللؤلؤَ والذهبَ “ (ابن ماجہ ) یعنی نا اہل کو علم سکھانا ایساہی ہے جیسے کوئی آدمی خنزیروں کے گلے میں جواہرات ، موتیوں اور سونے کے ہار پہنا دے۔
اسی طرح بسا اوقات اساتذہ کے انتخاب کے وقت بھی لیاقت و قابلیت اور استعداد و صلاحیت کے بجائے ذاتی پسند و نا پسند کو ملحوظ رکھ کر اساتذہ کا تقرر کر دیا جاتا ہے، خصوصا انتظامیہ کے اپنے اعزّہ واقارب کو "خدمت” کا موقع ضرور دیا جاتا ہے بھلے ان میں استعداد و صلاحیت نام کو بھی نہ ہو، اس طرح عقابوں کے نشیمن ، زاغوں کے تصرف میں چلے جاتے ہیں۔
ایک بہت بڑا مسئلہ جو کہ ممکن ہے آئندہ چند سالوں میں مزید شدت اختیار کر جائے وہ یہ ہے کہ اکثر مدارس میں مشاہرات اس قدر کم دیے جاتے ہیں کہ جن کے ذریعے کفایت شعاری کے ساتھ بھی گھر کے اخراجات کو پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے یہ چیز مشاہدے میں آئی ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل ذی استعداد فضلا کی ایک بہت بڑی تعداد مدارس میں تدریس کرنے کے بجائے عصری تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہے اور ان سے اس بارے میں استفسار کیا جائے تو 99 فیصد فضلا جواب میں معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ ماضی میں ہر با صلاحیت اور لائق فاضل کی اولین ترجیح تدریس ہوا کرتی تھی لیکن اب آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے باوجود قلیل مشاہرات کی وجہ سے ہمارے مدارس کا جو ہر اور خلاصہ مدارس میں رہ کر دینی خدمت سر انجام دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو مدارس کے ذمہ داران کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کوئی مدرسہ ایسا ہے جسے واقعۃً وسائل کی کمی کاسامنا ہے تو اس کا معاملہ الگ ہے لیکن اگر وسائل کی کمی نہ ہونے کے باوجود اساتذہ کو معقول مشاہرات نہیں دیے جارہے تو پھر قابل فضلا کے تدریس کی جانب نہ آنے کی ذمہ داری ایسے مدارس کی انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب ذی استعداد مدرس نہیں ملیں گے تو پھر نا اہل ہیں مسند تدریس پر براجمان ہوں گے اور پہلے ہی سے پست معیار تعلیم کو مزید پستی کی طرف دھکیلیں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے موجودہ علمی انحطاط کی ذمہ داری طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ تینوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ان تینوں میں سے ہر ایک طبقہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کا عزم کرلے تو آج بھی ہمارا معیار تعلیم بلند سے بلند تر ہو سکتا ہے۔