علمی انحطاط کے اسباب اور اصلاح کی راہ
از: عبدالعلیم دیوگھری
علما باوقار اور شان و شوکت کے حامل ہوتے ہیں، ان کی ذات متاثر کن ہوتی ہے، ان کے اعمال، اخلاق و کردار اور رنگ ڈھنگ دوسروں کے لیے مثال اور آئینہ ہوتے ہیں، ان کے گفتار میں شائستگی، انداز میں توازن اور شخصیت میں رعنائی و دلکشی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی ورع و تقوی اور زہد و تقشف سے آراستہ ہوتی ہے، ان کا سراپا تواضع و انکساری اور سادگی و بے ساختگی کا عملی نمونہ ہوتا ہے۔ ان کا وجود رحمت اور ان کی صحبت باعث سعادت ہوتی ہے۔ وہ علم و حکمت کے منارۂ نور ہوتے ہیں جس سے ایک جہاں ایمان و یقین اور رشد و ہدایت کی روشنی حاصل کرتا ہے، الغرض علما افراد قوم کے لیے ایک نمونہ، آئیڈیل اور نظیر ہوتے ہیں۔
یہ تو علما کے حوالے سے ہماری توقعات اور خوش فہمیاں ہیں، حقیقت حال خود علما سے بہتر کون جانتا ہوگا، زمانۂ حال میں ان صفات و خصوصیات کے حامل علما شاید پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں اور جو خال خال بچے ہوئے ہیں وہ بھی عہد کہنہ ہی کے سرمایہ ہیں۔
کچھ دیر کے لیے دوسری خوبیوں کو برطرف رکھیے اور محض صفت علم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماضی و حال کے علما کا تقابل کیجیے، پتہ چلےگا کہ دور حاضر کے علما علوم میں ماضی کے علما کے ہمسر تو درکنار آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔ ہمارے اسلاف کے اندر علمی اعتبار سے جو عمق و گہرائی، پختگی، وسعت، جدت و ندرت اور ہمہ گیریت پائی جاتی تھی وہ صفات آج کے علما میں مفقود ہیں، بالآخر اس بات پر اس احمقانہ تقابل کا اختتام ہوتا ہے کہ ”چہ نسبت خاک را بہ آفتاب؟“
جب کہ آج کا دور علوم و معارف کے خزانوں سے لبریز ہے، یہاں ماضی کے بالمقابل سیکھنے اور سکھانے کے اسباب و وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں، وہ علمی جواہر پارے جو کبھی دسترس سے باہر تھے اور وہ فنون جو مخصوص اور محدود حلقوں کا حصہ تھے آج ایک اشارے پر ہر خاص و عام کے لیے دستیاب ہو جاتے ہیں، گویا کہ آج ہر سو علوم و فنون کے دریا موجزن ہیں۔ اس قدر آسانیاں اور وسائل کی فراہمی کا لازمی اور عقلی نتیجہ تو یہ ہونا تھا کہ زمانہ حال کے علما ماضی کے علما سے برتر و فائق ہوتے؛ مگر یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔
اس علمی انحطاط کے پس پردہ دسیوں عوامل کار فرما ہوں گے، جنھیں شمار کیا جائے تو ایک فہرست مرتب ہو سکتی ہے؛ تاہم ہم یہاں چند اسباب کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔
اخلاص و للہیت کا فقدان
تحصیل علم کے باب میں اخلاص بنیادی فیکٹر کی حیثیت رکھتا ہے، کہ علم اللہ کی ایک صفت ہے اور اس کے دروازے اللہ کی توفیق و کرم فرمائی سے ہی کسی پر کھلتے ہیں۔ جب حصول علم کے مقصد میں اخلاص کا روحانی عنصر شامل ہو جاتا ہے تو وہ علم نہ صرف یہ کہ بظاہر روشنی دیتا ہے؛ بلکہ دلوں کی تاریکی کو بھی دور کرتا ہے، پھر وہ روشنی نسلا بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہے، اخلاص اور حسن نیت حصول علم کے مقصد کو مبارک و مقدس اور اس کی جستجو کو جاوداں بنا دیتے ہیں۔
آج اخلاص کا وہ نمایاں وصف جو ہمارے اسلاف کا طرہ امتیاز تھا ہمارے اندر سے ختم ہو چکا ہے اور ظاہر ہے کہ جب علم کے چراغ میں اخلاص کا روغن ختم ہو جائے اور شہرت و ناموری کی ہواؤں سے اسے جلایا جائے تو اس سے بجائے روشنی کے دھنواں اور تاریکی ہی پھیلتی ہے، جو خود پسندی کی تاریکیوں میں انسان کو دھکیل دیتی ہے۔
یہ اخلاص ہی کی برکت ہے کہ ہمارے اسلاف کے علوم آج بھی تر و تازہ ہیں اور دنیا میں روشنی بکھیر رہے ہیں۔
سہولت پسندی اور محنت کی کمی
ماضی میں حصول علم آسان نہ تھا، کتابیں کمیاب اور مہنگی تھیں، آج کی طرح جگہ جگہ علمی مراکز اور مدارس نہیں تھے، علمی مواد کی دستیابی بھی بڑی محنت و مشقت سے ہو پاتی تھی، علم کی نئی نئی جہتوں کی تلاش میں دور دراز کے اسفار کرنے پڑتے تھے، اس وجہ سے علما کے دلوں میں علم کی بڑی عظمت اور قدر و منزلت تھی، وہ علم کو محض سطحی معلومات کی طرح نہیں دیکھتے تھے، وہ صحیح معنوں میں علم کے شیدائی تھے، وہ معلومات کی گہرائی تک پہنچتے اور ہر ہر مسئلے کی پوری تحقیق کرتے تھے۔ ذرا ہدایہ اور فقہ کی کتابوں پر نظر ڈالیے تو پتہ چلےگا کہ ہمارے علما نے علم و تحقیق کے حوالے سے کس قدر جانفشانی کا مظاہرہ کیا ہے کہ بےشمار امکانی حالات میں پیش آنے والے پیچیدہ مسائل بیان کر دیے ہیں جو شاید ہی اس دور میں پیش آئے ہوں گے، اس سے ان کی علمی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کس طرح ہر امکانی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے علمی کام کیا تھا۔
دوسری طرف ہم ہیں جن کے پاس وسائل کی بہتات ہے؛ مگر ہمارا مطالعہ بالکل سطحی ہو چکا ہے، ہمیں تحقیق اور علمی گہرائی سے کیا نسبت ہے؟ ہمارا حال تو یہ ہے کہ نفس عبارت ہی ہم سمجھ لیں تو اسے اپنی علمی معراج گرداننا شروع کر دیتے ہیں۔
علمی ماحول کی کمی
علمی میں تعمق و تبحر، کمال و مہارت اور پختگی محض ذاتی محنت سے پیدا نہیں ہوتی؛ بلکہ گرد و پیش کے ماحول کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔
ماضی میں جن شہروں کو علوم کے مراکز سمجھے جاتے تھے مثلا بغداد، قاہرہ، بخارہ، سمرقند، نیشاپور و دہلی وغیرہ، ان شہروں کا ماحول بھی علمی تھا، ہر سو علم کے چشمے بہتے تھے، جگہ جگہ علمی محافل و مجالس لگتے تھے، اہل علم کے قافلوں کی آمد و رفت ہوتی تھی، بحث و مباحثے اور مناظرے ہوتے تھے، لوگ آپس میں علمی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے، مسائل پر غور و فکر کیا جاتا، دلائل دیے جاتے، ان کا تجزیہ کیا جاتا، ہر لمحہ فکر و نظر کا نیا باب کھلتا تھا الغرض سارا شہر علمی ماحول میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔
مگر اب وہ علمی مجلسیں قصۂ پارینہ بن چکی ہیں، فکر و تدبر کے مجالس ناپید ہو چکے ہیں، اب شوق علم باقی ہے اور نہ تحقیق و جستجو کا جذبہ موجود ہے، کتابیں گرد آلود ہیں، کاغذ کی مہک روٹھ چکی ہے، روشنائی جس سے فکر و تدبر کی روشنی پھوٹتی تھی سوکھ چکی ہے، قلم پر گہری خاموشی چھائی ہے، لفظوں کی چمک دھندلا چکی ہے، علم کے سوتے خشک ہونے کو ہیں؛ کیوں کہ علم کے لیے بےتاب رہنے والوں دلوں پر غفلت و توجہی کی دھول جم گئی ہے۔
اب تو علما کی مجلسیں بھی لغویات و لہویات کا مرکز بن گئی ہیں۔ اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ اکثر جب بھی میں علما کی صحبت میں بیٹھا، اس گمان میں بیٹھا کہ یہاں افکار و نظریات پر تبادلۂ خیال ہوگا اور فکر و نظر کے نئے دریچے کھلیں گے؛ مگر بہت کم ایسا ہوا، اکثر تو سارا وقت بےمقصد مباحث اور دنیوی باتوں کی نذر ہو گیا۔
آج اہل علم نے علم و فن کو درسگاہوں تک محدود کر دیا ہے، اس بات سے دل کڑھتا ہے کہ اہل علم کی مجالس میں بھی فکر و دانش کے چراغ مدھم پڑ جائیں گے تو پھر روشنی کہاں سے آئےگی؟
علم سے عمل کی روح فنا ہو جانا
پہلے علما تعلیم کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہوتے تھے، وہ محض معلومات جمع کرنے کے قائل نہیں تھے؛ بلکہ اپنی معلومات کو عملی زندگی میں برتتے اور مختلف پہلوؤں میں ڈھالتے بھی تھے، جو عالم ہوتا وہ ولی اللہ بھی ہوتا تھا؛ چناں چہ امام ابوحنیفہ، امام مالک و شافعی، احمد و بخاری و مسلم وغیرہ (رحمہم اللہ) نہ صرف علمی اعتبار سے بلند مقام و مرتبے کے حامل تھے؛ بلکہ یہ حضرات زہد و تقوی کے اعلی معیار پر بھی فائز تھے، چناں چہ ان کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی زاہدانہ اور عابدانہ زندگی بھی کتنی قابل رشک تھی، اور لوگوں کے ساتھ ان کے معاملات اور اخلاق کس عظیم معیار کے تھے۔
آج قال اللہ اور قال الرسول کے زمزموں سے درسگاہیں گونجتی ہیں؛ مگر عملی زندگی میں ان کی تفسیر و تشریح نظر نہیں آتی، علم کتابوں کے صفحات میں قید ہوکر رہ گیا ہے اور عمل کی سرزمین اس کے نقوش سے خالی ہیں، علما لمبی لمبی تقریریں تو کرتے ہیں؛ مگر کردار و عمل سے کوئی نمونہ پیش نہیں کرتے۔ جو علم کبھی امت کی کشتی کو ساحل مراد تک لیکر آتا تھا وہ آج خود بےعملی کے گرداب میں غرق ہو رہا ہے اور علما جو کبھی چراغ راہ تھے آج خود کو تاریکیوں میں گم کر چکے ہیں۔
آج علم کا حقیقی مقصد گم ہو چکا ہے اور عمل کی روح ختم ہو چکی ہے، نتیجہ علم کی افادیت اور اس کا دائرہ اثر انتہائی تنگ ہوکر رہ گیا ہے، ظاہر ہے علم کی شمع جب عمل کے روغن سے نہیں روشن نہیں ہوگی تو اس کی روشنی ضرور مدھم پڑ جائے گی۔
مطالعہ اور کتب بینی سے کنارہ کشی
علم کا سورس اور پاؤر ہاؤس کتابیں ہیں، کتابیں ہی وہ زینہ ہیں جن کے ذریعے علم و دانش کی چوٹیوں تک پہنچا جا سکتا ہے، کتابیں دلوں کو روشنی، فکر کو تازگی اور عقل کو بالیدگی عطا کرتی ہیں۔ ماضی کے علما اپنی راتوں کو چراغوں کی لو میں اور دن درس و تدریس میں بسر کرتے تھے، ان کی نگاہیں کتابوں کے اوراق میں گم رہا کرتی تھیں اور ان کا قلم علم کی خوشبو بکھیرنے میں مصروف رہتا تھا۔
ہمارے اسلاف مطالعہ کے کس حد تک رسیا تھے اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کے حالات زندگی ان کے جذبہ مطالعہ اور شوق کتب بینی کے ناقابل یقین واقعات سے لبریز ہیں۔
آج علما نے مطالعہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے، بھلا وہ عالم ہی کیسا جس کا رشتہ کتابوں سے ٹوٹ چکا ہو اور قلم ہاتھ سے چھوٹ چکا ہو۔ آج علما بھی سنی سنائی باتوں پر اکتفا کرنے لگے ہیں؛ چناں چہ آئے دن مقررین حضرات بر سر اسٹیج ایسی بےتکی باتیں اور غیر مستند واقعات بیان کر دیتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، اس قسم کی لغزشوں کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ کتابوں سے دوری اختیار کر لی گئی ہے؟
ان کے علاوہ بھی متعدد وجوہات ہیں جن میں معیار تعلیم، ٹیکنالوجی کا غلط استعمال، معاشی مسائل اور بدلتے رجحانات وغیرہ شامل ہیں، ان پر تفصیلی گفتگو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
ابھی وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ علما اپنے اسلاف کے نقش قدم کی پیروی کریں۔ ہمارے اندر جو زوال آیا ہے اس کے اسباب وہی ہیں جو بیان کیے گئے، یقینی بات ہے کہ جب علم زبانی دعووں تک محدود رہے، عمل کے چراغ گل ہو جائیں، مطالعہ کا جذبہ ختم ہو جائے، علم کے بازار میں شہرت و ناموری اور دنیوی منفعتیں خریدی جانے لگے، علما کی مجلسوں کی روحانیت فنا ہو جائے تو بھلا کہاں سے ایسے علم میں برکت باقی رہےگی اور کیوں کر ایسا علم رشد و ہدایت کا منبع بن پائےگا؟
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نیا عزم، نیا جوش اور نیا ولولہ لیکر ایک نیا انقلاب اور ایک نئی تحریک برپا کرنے کی کوشش کریں، اور اپنے اسلاف کو نمونۂ عمل بنائیں، یہ وقت جاگنے، آگے بڑھنے اور اسلاف کے علمی روثے کو زندہ کرنے کا وقت ہے؛ ورنہ ہماری داستان بھی تاریخ کے صفحات میں ان قوموں کی طرح گم ہوکر رہ جائے گی جو اپنے علمی و عملی زوال کے باعث گمنامی کے کھنڈرات میں مدفون ہوکر رہ گئے ہیں۔
Leave a Reply