عجمیوں کا امام
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
4 رجب 1446ھ 5 جنوری 2025ء
جان لیوا امام، روح افزا امام، عربوں کا امام اور اب عجمیوں کا امام۔
میرا خیال تھا کہ بچوں کو پالنا زندگی کا سب سے مشکل کام ہے، تقریبا نا ممکن! بچے خود کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع فوت نہیں کرتے، وہ ہر سانپ کو ٹرائی کرتے ہیں اور خود اذیتی میں خود سوزی سے بھی ہار نہیں مانتے، بس بچوں کو اللہ ہی پالتا ہے؛ لیکن جب ائمۂ مساجد کے کوائف سامنے آئے تو رائے بدل گئی، اب "بچہ پالن پیشہ” دوسرے درجے پر ہے اور پیشۂ امامت، زندگی کی دشوار گزار گھاٹی کا فرنٹ لائن چیلنج ہے، ہمارے ائمہ کا صحت نامہ، مساجد کے زیر سایہ جاری داستانِ ستم کا خاموش ترجمان ہے، ہر حساس، غیرت مند اور خوددار امام ہائی بلڈ پریشر اور شوگر سے دوچار ہے۔
ہمارا مدرس اپنے مہتمم کے تعلق سے شکایت کی ڈائری تیار کر لیتا ہے اور امام مسجد کو نگاہِ رشک سے دیکھتا ہے، اسے معلوم نہیں کہ مدرسے کا فقط ایک مہتمم ہوتا ہے اور شخصِ واحد کو شیشے میں اتارنا کچھ مشکل نہیں؛ جب کہ مسجد کا ہر مقتدی مستقل مہتمم ہے، ایک اکیلی جان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ سو جداگانہ معیار سے نبرد آزما ہو اور ان کے متضاد مطالبات سے عہدہ برا بھی؟ بس وہ امامت کی کشتی کو گردشوں کے بھنور، موجوں کے تھپیڑوں، باد مخالف کی رکاوٹوں اور چٹانوں کی مار کے درمیان اپنی صحت، جوانی اور عمر گراں مایہ کی قیمت پر رواں دواں رکھتا ہے۔
دینی خدام کی زبوں حالی ہمارا قومی المیہ ہے، ہم امام وموذن کی تقرری کا معیار تشکیل دیتے ہوے ممکنہ تمام لیاقتوں کو درج فہرست کر دیتے ہیں؛ مگر حق الخدمت کی تعیین میں چور بن جاتے ہیں، ایک ذمے دار کسی موذن کا محاسبہ کر رہا تھا، وہ بھی بھرا بیٹھا تھا، کہنے لگا: اتنی تنخواہ میں آپ کو محمد رفیع لادوں؟ ایک امام صاحب تنخواہ میں اضافے کی درخواست متواتر کر رہے تھے، ذمے داران ہر بار نظر انداز کرتے اور ایک ہی بات دہراتے کہ صبر کرو، صبرکا پھل میٹھا ہوتا ہے، آخرش ایک روز وہ امامت کر رہے تھے، پاجامہ پھٹا ہوا تھا، بحالت سجدہ سترِ خاص آویزاں نظر آیا، مقتدیوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ امام صاحب نے فرمایا کہ یہ صبر کا پھل ہے!
کہیں حکایت برعکس بھی ہے، مرور زمانہ اگر امام وموذن کو بے مہار کردے تو وہ بھی گل کھلاتے ہیں، قدامت بھی عجب شے ہے، پتھر کو بھی بھاری کر دیتی ہے، امام وموذن تو پھر بھی انسان ہیں، ایک مرتبہ کا ذکر ہے میں قرول باغ دہلی میں آوارگی کر رہا تھا، جمعہ کا دن تھا، نماز کے لیے قرول باغ کی بڑی مسجد پہنچا تو امام نے پہچان لیا اور مجھے تقریر کے لیے مجبور کردیا، درمیان خطاب مائک خراب ہوگیا تو موذن صاحب لنگی بنیان میں آئے اور مائک درست کر کے چلے گئے، یہ نیم برہنہ ہیئت مسجد کے حاضرین وسامعین کو ناگوار گذری نہ موذن کو تکلف ہوا، بعد میں امام صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ گذشتہ پچیس سالوں سے برسر منصب موذن ہیں، اب میری حیرت دور ہوئی، وہ مائک سیٹ کرنے کے لیے کچھا بنیان میں بھی آسکتے تھے۔
مجھے شیواجی نگر کی طرف گاہے بہ گاہے جانا ہوتا ہے، وہاں ایک اہم مسجد میں قدیم الایام امام ہیں، مسجد کی تعیین نہیں کروں گا، ورنہ اگلی نماز میں دبوچ لیا جاؤں گا، ان کا قدیم رنگ میرے علم میں نہیں؛ مگر آج وہ عہد رفتہ ہیں، قراءت میں تو کیا ہی دم ہوتا! ان کی تکبیرات میں بھی جان نہیں، بس نمازیں پڑھائے جا رہے ہیں! اس کے بر خلاف ہمارے امام صاحب باتوفیق شخصیت ہیں، اسی لیے ان کو ایک برکت بھری زندگی عطا ہوئی، وہ بھی کبر سنی اور طبیعت کی نزاکت سے دوچار ہیں، انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ عشاء اور فجر کے لیے نزدیکی مدرسے کے ایک خوش الحان طالب علم کو مقرر کر لیا، وہ کیا نماز پڑھاتا ہے! بس ملأ اعلی کی سیر ہی کرا دیتا ہے، شیواجی نگر کا امام بھی کسی جوان العمر خوش گلو کو جہری نمازیں تفویض کر سکتا ہے، مگر نہیں!
ہمارے دیار کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز سے قبل اعلان ہوا کہ نماز کے بعد سب رک جائیں، اہم مشورہ درپیش ہے، دوسرا بولا: ابھی کہو، ہم نماز کے بعد نہیں رکنے والے، معلن کے پڑوسی نے کہنی ماری کہ تو بول، کچھ وقت اسی تبادلے میں گذرا، آخر ایک بولا کہ امام کو نکالنا ہے، امام بھی مابدولت حاضر اور موجود تھے، دوسری ٹیم کا ممبر پوچھتا ہے کہ امام صاحب کی خطا کیا ہے؟ حزب مخالف کا نمائندہ کہتا ہے کہ امام پارٹی باز ہے اور اس نے گاؤں میں تفرقہ کردیا ہے، دوسرے پالے کا متکلم نمودار ہوا اور اس نے امام کی فہمائش کی، امام نے عہد کیا کہ آئندہ سیاسی سرگرمی سے باز رہے گا۔
مخالف ترجمان نے دوسرا پتا پھینکا کہ امام بیڑی پیتا ہے، موافق خیمہ پھر بچاؤ میں آیا اور امام صاحب سے ترکِ بیڑی کی بیعت لی گئی، جو امام صاحب نے فوری پیش کی، مخالف پارٹی کے ایک کارکن نے دوسرے کے کان میں کہا کہ وہ بات بول جو چھٹمل پور والے حضرت نے کہی تھی، استفسار پر عرض کیا گیا کہ امام لنگڑا ہے اور چھٹمل پور کے حضرت نے اس کی امامت کو مکروہ کہا ہے، نیوٹرل دبنگ نے مداخلت کی اور مخالف خیمہ کو جھڑک کر کہا کہ امام سے ہل چلوانا ہے یا نماز پڑھوانی ہے؟ لنگڑا ہے تو کیا ہوا؟ نماز تو پڑھا ہی دیتا ہے، چل بھائی امام! نماز پڑھا، اب کوئی نہیں بولے گا اور امام یہی رہے گا، قضیہ ختم!
اور اسی کے ساتھ ہماری فیس بکی دل لگی بھی ختم یا پھر کم، آج ایک دوست نے زور سے ڈانٹ دیا کہ یہ کیا بکواس لگا رکھی ہے، مضمون بازی بند کر اور چپ چاپ بخاری لکھ ورنہ خرچہ بند، حضرت مولانا علیہ الرحمہ یاد آگئے وہ فرماتے تھے کہ فہیم! صرف ایضاح البخاری لکھ، اور کچھ مت کر، اندرونِ دارالعلوم اور بیرونِ دارالعلوم تیری جو بھی امنگیں ہیں اسی کام سے پوری ہوں گی، میں بد نصیب اس نصیحت پر عمل پیرا نہ ہوا، نتیجتا خانماں خراب ہوں، آج مذکورہ دوست کہتا ہے کہ تو بخاری لکھ، تیرے سارے خسارے اور قرضے میرے ذمے۔
ارے بھائی! آپ نے ایضاح البخاری کی گیارہویں جلد پڑھی؟ جاؤ خریدو اور پڑھو، وہ حضرت علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد لکھی گئی ہے اور بندے نے اس میں خوب آزاد ہو کر اچھل کود کی ہے، اس کے تراجم وابواب دیکھو، میری مضمون آفرینی نے انھیں دل کش بنا دیا ہے، سادہ نظر آنے والے عناوین بھی اہم، گہرے اور باوزن نظر آئیں گے، احادیث کا اردو ترجمہ بہتا آبشار ہے، میرے علم کے مطابق احادیث کے اردو ترجمے کے باب میں مشہور اہل حدیث عالم، مولانا وحید الزمان حیدرآبادی جملہ مترجمین پر فائق ہیں، ان کا علم بھی وافر ہے، ترجمے کے لفظ لفظ سے ٹپکتا ہے، علم اور بیان جمع ہو جائیں تو قیامت ڈھاتے ہیں، تحدیثِ نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ میرے ترجمے نے ان کا سحر توڑ دیا ہے، جب بھی مراجعت کی اپنی تعبیر کو برتر وبالا پایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے اوپر حق ہے کہ ہم ان کے ارشادات کو اردو قالب دیتے ہوے جان کی بازی لگائیں؛ تا آں کہ ترجمہ اصل کلام کی رعنائی سے ہم آہنگ ہو جائے۔