شادیوں میں ڈی جے (گانے بجانے) کے پھیلتے جراثیم
از: عبدالعلیم دیوگھری
نکاح پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے، نکاح انسان کی زندگی کا انتہائی مسرت انگیز اور خوشی سے لبریز لمحہ ہوتا ہے، نکاح باہمی الفت و محبت اور خوشی کا حسین امتزاج ہے، اس کے نتیجے میں نہ صرف دو دلوں کے درمیان محبت و الفت کا خوبصورت جذبہ بیدار ہوتا ہے؛ بلکہ دو خاندانوں کے درمیان توافق و ہم آہنگی اور محبت کے خوشگوار اور لازوال تعلقات بھی استوار ہوتے ہیں۔
نکاح اور شادی بیاہ کی تقاریب اگر شرعی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ منعقد کی جائیں تو بےشک وہ خیر و برکت اور رحمت و سعادت کا سر چشمہ بن جاتی ہیں؛ لیکن اگر یہی تقاریب شرعی حدود و ضوابط کی پامالی کا ذریعہ بن جائیں تو ان کا انجام نہ صرف اخروی خسارے؛ بلکہ دنیوی ذلت و نقصان کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ شادی محض ایک سماجی معاہدہ ہی نہیں ہے؛ بلکہ شریعت اسلامیہ میں اسے عبادت کی حیثیت حاصل ہے اور عبادات کا یہ اختصاص ہے کہ ان کے اندر انسانی مرضیات اور ذاتی میلانات کی آمیزش کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہوتی، وحی کے ذریعے ان کی انجام دہی کے جو اسلوب اور طریقے بیان کر دیے گئے ہیں وہ اٹل ہوتے ہیں ان میں تغیر و تبدل کی جرات کرنا سخت ترین گناہ ہے۔
شادیوں میں غیر شرعی رسومات
مگر یہ افسوس ناک المیہ ہے کہ دور حاضر میں ہوا و ہوس کی پیروی میں مسلمان اس درجہ آگے جا چکے ہیں کہ انھوں نے جشنِ شادی خانہ آبادی کی آڑ میں ایسی بدعات و خرافات اور غیر شرعی رسومات کو فروغ دیا ہے جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہونے کے ساتھ اخلاقی پستی، نفس پرستی اور روحانی زوال کے آئینہ دار ہیں۔ نفس پرستی کی اندھی دوڑ میں اتنی جرات و بےخوفی کے ساتھ انھوں نے نکاح جیسی پاکیزہ عبادت کے اندر قبیح اور شیطانی مظاہر کو جگہ دی ہے کہ شیطان بھی دیکھ کر شرما جائے۔
شادی بیاہ کے مواقع پر رائج رسومات کی فہرست کافی طویل ہے اور ہر رسم کے مفاسد اس قدر نمایاں ہیں کہ ان پر دسیوں صفحات سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ سرِ دست ہمارا موضوع جشن شادی کی آڑ میں ہونے والی طنبورہ نوازی اور رقص بےحیائی ہے۔
شادیوں میں ڈی جے اور ناچ گانا
شادیوں کے موقع پر نکلنے والا جلوس اپنے ساتھ لہو و لعب، ذہنی عیاشی اور خرام بےساختہ کے مختلف سامان لیکر چلتا ہے، ٹرک نما ایک گاڑی ڈی جے نام کے صوتی دہشت پیدا کرنے والے مختلف آلات کو اٹھائی اور رنگ برنگ قمقموں سے سجی ہوئی خراماں خراماں آگے چلتی ہے اور اس کے پیچھے اوباشوں اور آوارہ مزاجوں کا ہجوم تہذیب و شائستگی کا جنازہ لیے بےہنگم رقص و سرود میں محو ہوتا ہے۔ پھر چاہے ڈی جے کی مکروہ آواز لوگوں کی سماع خراشی کا سبب بنے یا ان کی نیندیں خراب ہوں ان اوباشوں کو قطعا اس بات کی پروا نہیں ہوتی ہے۔
ایک وقت تھا جب ناچ گانا ایک مسلمان کے لیے باعثِ ننگ و عار تھا؛ مگر اب عزت و شرافت کو بالائے طاق رکھ کر محض اپنے دو ٹکے کے مصنوعی دعب و داب اور تفاخر کے اظہار کی خاطر اس شنیع عمل کو نکاح جیسے پاکیزہ عمل کا جز بنا دیا گیا ہے۔ امرا کی پیروی میں متوسط طبقے کے افراد بھی شادیوں کے موقع پر ڈی جے کے انتظام سے نہیں چوکتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے گھرانے کی بھی شادی دیکھی جو کبھی نان شبینہ کا محتاج تھے اور اب بھی معاشی اعتبار سے زار و نزار ہیں؛ مگر انھوں نے اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر نہ جانے کہاں سے ڈی جے کا اوباشوں کے لیے معقول انتظام کر دیا۔ گویا اس قبیح عمل کی پذیرائی امیر و غریب ہر طبقے میں ہو رہی ہے۔ تاہم معاشرے کی ایک بڑی اکثریت ایسی بھی ہے جن میں بفضل اللہ اس درجہ تو دینی غیرت و حمیت باقی ہے کہ وہ اس قبیح عمل سے بچی ہوئی ہے۔
ڈی جے والی شادیوں میں شرکت
شادی کے موقع پر ڈی جے بجانے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ اس حوالے سے ہم کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے، اس کی حرمت و شناعت اس قدر عیاں ہے کہ اس پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے، متعدد فتاوی جات اس کی حرمت پر موجود ہیں، آئے دن علماء کرام بھی اس کے تعلق سے بات کرتے رہتے ہیں، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ بہت سے گاؤں میں ڈی جے نکالنے پر سماج کی طرف سے پابندی لگا دی جاتی ہے؛ نیز بہت سی جگہوں پر ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا جاتا ہے، یہ طرز عمل انتہائی عمدہ اور مؤثر ہے اور ہر گاؤں کے سربرآوردہ افراد کو بیٹھ کر سماجی سطح پر اس طرح کے فیصلے صادر کرنے چاہیے۔ نیز ممکن ہو تو گاؤں در گاؤں اصلاح معاشرہ کمیٹی تشکیل دیکر شادی کے موقع پر لوگوں کو اسلامی شادی کی رہنمائی کی جائے۔ فرد واحد کی حیثیت سے ہمارا کام جو ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایسی شادیوں میں شرکت سے گریز کریں جہاں ڈی جے کا نظم ہو، فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہوا کہ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ شادی کی محفل میں کسی منکر کو انجام دیا جائے گا تو اس کے لیے دعوت قبول کرنا اور شریک ہونا جائز نہیں ہے، لیکن اگر ناچ گانے کے متعلق علم نہیں نہ ہو پھر دعوت میں شریک ہو گیا تو یہاں چند صورتیں ہیں: اول تو یہ کہ شرکت کے بعد گانے بجانے یا کسی دوسرے منکر کا علم ہوا تو اب یہ دیکھا جائے کہ وہ برائی کھانے کی مجلس میں بھی ہو رہی ہے یا نہیں؟ اگر وہاں بھی ہو رہی ہے تو ممکن ہو تو انھیں منع کرے، اگر منع کی قدرت نہ ہو تو خاموشی کے ساتھ وہاں سے واپس آ جائے، اور اگر کھانے کی محفل اس برائی میں ملوث نہ ہو تو عامی شخص کا یہ حکم ہے کہ وہ دل پر ہاتھ رکھ کر کھانا سکتا ہے؛ تاہم علما، خواص اور مقتدیٰ قسم کے افراد کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ منع کر سکتے ہوں تو ضرور منع کریں اور اگر نہ کر سکیں تو انھیں واپس آ جانا چاہیے وہاں بیٹھ کر کھانا پینا ان کے لیے بہتر نہیں ہے۔ (فتاوی عالمگیری)
لہذا ایسی شادیوں میں علما کا جانا پھر وہاں نکاح خوانی کرنا ان کی شان اور وقار کو ہرگز زیب نہیں دیتا ہے، اسی طرح جو لوگ بھی تھوڑا دینی پس منظر رکھتے ہوں یا شرافت پسند ہوں انھیں بھی ایسی شادیوں میں شرکت سے گریز کرنا چاہیے، اور اس معاملے میں قرابت و رشتہ داری کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے؛ کیوں کہ خالق کی نافرمانی کرکے کسی مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔
بہت اچھا ہو کہ جب رشتے کی بات چیت ہو تو یہ شرط رکھ دی جائے کہ ڈی جے کا ہرگز انتظام نہیں ہوگا، عام طور پر لوگ احتراما اس شرط کو مان لیتے ہیں، بس کوئی کہنے والا نہیں ہوتا ہے۔
ان سب کے علاوہ ناچ گانے کے خلاف شوشل میڈیا پر موثر تحریک برپا کرنا بھی کارآمد ہو سکتا ہے، نیز بیانات و خطبات میں اس موضوع پر مزید کھل کر اور شدت سے بات کرنے کی ضرورت ہے، عموماً ناچ گانا غیر مہذب اور دین سے ناواقف لوگ کرتے ہیں؛ لہذا ان کے اندر دینی و اخلاقی بیداری پیدا کرنا بھی ضروری ہے، ان میں جب تک یہ شعور بیدار نہیں ہوگا کہ شادی کوئی رسم نہیں؛ بلکہ عبادت ہے تب تک اس ناسور کے پھیلتے جراثیم کو نہیں روکا جا سکتا ہے۔