زمین ساکن ہے یا متحرک؟
از: مفتی عبداللہ ممتاز قاسمی
یہ سوال کسی مذہبی عالم سے پوچھنا ایسے ہی ہے جیسے: آنکھوں کے ڈاکٹر سے ٹارچ کے فنکشن دریافت کرنا، گلے کے ڈاکٹر سے ساؤنڈ سسٹم کے میکنزم دریافت کرنا، الیاس عطاری سے احادیث کا صحت وضعف دریافت کرنا اور امین القادری سے رواۃ کی جرح وتعدیل دریافت کرنا.
اور اگر کسی بیوقوف نے ان سے زمین کے ساکن یا متحرک ہونے کا فلسفہ پوچھ ہی لیا تو وہ عالم بجائے اس کے کہ یہ کہہ کر اس سے اپنی لاعلمی کا اظہار کردے کہ یہبسائنس کا موضوع ہے، مذہب کا نہیں، انھیں بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں ساکن یا متحرک ثابت کرنے لگے تو اس کا حشر سائنس میں وہی ہوتا ہے، جو مذہب میں انجینیر محمد علی مرزا کا ہورہا ہے.
مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"قرآن میں اس قسم کی آیتیں جو پائی جاتی ہیں، جن میں حرکت اور جاری ہونے کا تعلق جو آفتاب وماہتاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے. مثلا: "والشمس تجري لمستقر لها” …. آفتاب و ماہتاب کی طرف جاری ہونے کے فعل کے انتساب کو یہ سمجھ لینا کہ رات اور دن کا جو چکر ہمارے سامنے جاری ہے اس کی اصل حقیقت کو قرآن واشگاف کرنا چاہتا ہے، اس کا مطلب تو پھر وہی ہوا کہ اپنی معلومات کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن کو حق تعالیٰ نے نازل فرمایا؛ لیکن جب معلوم ہوچکا کہ قرآن کے موضوعِ بحث سے جو جاہل ہے، وہی اس قسم کے مالیخولیا میں مبتلا ہوسکتا ہے، تو حوادثِ کائنات کی توجیہ وتاویل کے قصوں کو قرآن میں ڈھونڈنا یا اس سلسلہ میں قرآن کی طرف کسی قطعی فیصلہ کی جراَت خود اپنی عقل کی بھی اہانت ہے. (احاطہ دارالعلوم/ ۱۲۲)
قرآن کا مقصد عام مشاہدہ اور قصص وواقعات کو بیان کرکے، عقائد واحکام کو بیان کرنا ہے. مثلا: "أفلا ينظرون إلى الإبل كيف خلقت”. (کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے، کیسے اس کی تخلیق ہوئی) "ألم نجعل الأرض مهادا”. (کیا ہم نے زمین کو ہموار نہیں بنایا) "أولم يروا إلى الطير فوقهم صافات ويقبضن” (کیا وہ لوگ اپنے اوپر پرند کو نہیں دیکھتے پروں کو پھیلائے ہوے اور سمیٹے ہوے) یہ سب عام مشاہدے کی بات ہے. انسان اپنی زندگی میں اس کا مشاہدہ کرتا ہے؛ لیکن روز مرہ کے مشاہدہ کی وجہ سے ان کے انوکھے پن (uniqueness) سے کسی حد تک غافل ہوتا ہے، اللہ تعالی ان میں غور کرکے ان کے خالق پر ایمان لانے اور اس کے احکام کو بجالانے کی دعوت دیتا ہے.
بعض لوگ سورہ فرقان کی آیت: "وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا”. سے استدلال کرتے ہیں کہ سائنسی دریافت سے قبل ہی قرآن نے اسے بیان کردیا تھا، یہ قرآن کا کمال ہے. اس کے جواب میں کئی عیسائی مناظروں کو دیکھا، وہ بعض قدیم کتب کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ قرآنی دریافت نہیں ہے؛ بلکہ پہلے بھی کئی محققین اور سیاحوں کو اس کا پتہ تھا. جب کہ یہ سرے سے بحث ہی فضول ہے کہ قرآن نے اس کا انکشاف کیا یا سائنس نے، اصل بات یہ ہے کہ قرآن نے اسے رب کی نشانی بتائی کہ دو دریا آپس میں ملے، ایک میٹھا ہو اور دوسرا کھارا؛ میٹھا پانی کھارا میں اور کھارا پانی میٹھے میں نہ ملتا ہو، ان دونوں کے درمیان اللہ نے ایک پرت کھینچ دی جو انھیں آپس میں ملنے نہیں دیتا. "بينهما برزخ لا يبغيان”.
اس لیے یہ بحث ہمارے لیے سرے سے فضول ہے کہ زمین گردش کرتی ہے سورج کے گرد یا سورج گردش کرتا ہے زمین کے گرد یا دونوں گردش کرتے ہیں ایک دوسرے کے گرد. ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ اتا بڑا یونیورس جس میں لاکھوں کروڑوں سیارے ہیں اور جنھیں عام لوگ اپنی آنکھوں سے چاند، سورج اور ستاروں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں، کیا یہ اتفاقی ہوسکتے ہیں؟ کیا ان کا کوئی مقصد نہیں ہوگا؟ کیا ان کا کوئی خالق نہیں ہوگا؟ نہیں ہرگز نہیں، ضرور کوئی خالق کائنات ہے اور ان کے بنانے کا کوئی مقصد ہے. فتبارك الله أحسن الخالقين
زمین ساکن ہے یا متحرک، یہ قدیم فلاسفہ اور جدید سائنس دانوں کا اختلاف ہے، ان میں ہمارا کیا کام؟ اگر زمین متحرک ہے تو ہمیں اس سے ماننے میں کوئی دریغ نہیں. جیسے فلائٹ میں بیٹھے مسافر کے لیے فلائٹ ساکن ہوتی ہے، کچھ احساس نہیں ہوتا جب تک کہ کھڑکی سے باہر جھانک کر نہ دیکھے، جب کہ فلائٹ محو سفر ہوتی ہے، باہر سے دیکھنے والوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتی ہوئی صاف نظر آتی ہے. ایسے ہی اگر زمینی فضا سے باہر جاکر دیکھنے والوں کو زمین متحرک نظر آئے یا ہمارے احساسات ومشاہدہ کے برخلاف سائنسی تحقیق میں زمین گردش کر رہی ہو تو اس سے ہمیں کیا اختلاف، ہم زمین پر رہنے والوں کے ہرفرد بشر کا مشاہدہ وتجربہ یہی ہے کہ زمین ساکن ہے؛ ہاں جیسے فلائٹ میں کبھی کبھار ٹربیولنس (عام زبان میں فضائی جرکِن) آتی ہے جو عام مسافروں کے بے اطمیانی پر حملہ آور ہوتی ہے اور انھیں یاد دلاتی ہے کہ محض اس وجہ سے کہ فلائٹ بظاہر حرکت نہیں کر رہی ہے، خود کو اتنا محفوظ نہ سمجھ لیں. زمین پر بھی دو پانچ سکینڈز کے لیے اللہ تعالی اسے جنبش دیتے ہیں، جسے ہم زلزلہ کہتے ہیں. یہ باری تعالی کی طرف سے یاد دہانی ہوتی ہے کہ جس نے اس زمین کو غیر متحرک اور قابل رہائش بنایا ہوا ہے، وہ کبھی بھی اسے متحرک بناسکتا ہے. دو پانچ سکینڈ کی معمولی سی جنبش سے تمھارا یہ حشر ہوتا ہے، سوچو اگر ذرا زور سے ہلادیا جائے تو تمھارا کیا ہوگا؟ اس لیے رب سے بے خوف اور لاپروا نہ ہوجانا.
حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
’’قرآن جس فن کی کتاب ہے اس میں سب سے ممتاز ہونا، یہ فخر کی بات ہے، یعنی اثباتِ توحید و اثباتِ معاد و اصلاحِ ظاہر و باطن، اگر سائنس کا ایک مسئلہ بھی اس میں نہ ہو تو کوئی عیب نہیں اور اگر سائنس کے سب مسئلہ ہوں تو فخر نہیں، قرآن کو ایسی خیر خواہی کی ضرورت نہیں۔ (امداد الفتاوی)
Leave a Reply