خاندان برامکہ کا تعارف

خاندان برامکہ کا تعارف

خاندان برامکہ کا تعارف

از: عبدالعلیم دیوگھری

تاریخ کا موضوع بڑا دلچسپ ہے، اس کے دامن میں قوموں کے ایسے انگنت لرزہ خیز اور حیرت آفریں واقعات بکھرے پڑے ہیں جو کسی افسانوی کہانی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، ان واقعات میں نہ صرف یہ کہ ماضی کی قوموں کی تہذیب و تمدن، طریقہ بود و باش، رسم و رواج، ثقافت و روایت اور زبان و بیان کی جھلک نظر آتی ہے؛ بلکہ ان کے عروج و اقبال مندی، ادبار و تنزل اور تعمیر و تخریب کی انوکھی داستانوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔

ان قوموں کی غیر معمولی رفعت و بلندی، شان و شوکت اور اقتدار و وجاہت سے جہاں ہمیں بلند ہمتی، عالی حوصلگی اور جرات و استقلال کے اسباق ملتے ہیں وہیں ان کے تنزل و ناکامی اور انحطاط و زوال کی داستانیں ہمیں فکر و عمل اور عبرت کے سامان بھی بہم فراہم کرتی ہیں۔

آئیے تاریخ کے کھنڈرات میں چلتے ہیں اور ایک ایسی قوم سے متعارف ہوتے ہیں جو ایک وقت مسند عروج پر بڑی طمطراق سے براجمان ہوتی ہے؛ مگر قدرت کے سخت امتحانات جب اس پر حاوی ہوتے ہیں تو اس کے سر سے اقتدار کا ہما اڑ جاتا ہے اور پل بھر میں اس کا ستارۂ اقبال غروب ہو جاتا ہے۔

عروج و تنزل کی ایسی انوکھی داستان رکھنے والی قوم کا نام ”برامکہ“ ہے۔

 

 

خاندان برامکہ کا تعارف

برامکہ ایک مشہور خاندان تھا جو اصلا خراسان کے شہر بلخ سے تعلق رکھتا تھا، ان کے جد اعلی ایران کے مشہور اور مرکزی آتش کدہ نوبہار کے سرپرست اعظم تھے، ایران میں چار مشہور آتش کدے تھے ان کے سربراہ و منتظم کو ”مغ“ کہا جاتا تھا، اور جو سب سے بڑے آتش کدے کا منتظم ہوتا اسے ”برمغ“ کا لقب دیا جاتا تھا۔

سن ۳۱ ہجری میں مسلمانوں کا امنڈتا سیلاب جب ”مرو“ کی جانب بڑھا، تو وہ دشت و صحرا کو روندتے ہوئے اور پہاڑوں کی بلندیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ”بلخ“ میں داخل ہوئے، نتیجۃً اہل بلخ اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے لگے اور آتش کدوں اور آتش پرستوں کی شوکت و عظمت کا چراغ گل ہونے لگا؛ تاہم ”برمغ“ صاحب چوں کہ مذہبی پیشوا تھے اس وجہ سے وہ اپنے سابق مذہب پر قائم رہے اور اپنے سابقہ لقب سے ہی پکارے جاتے رہے، اہل عرب اسی نام کو ”برمک“ کہنے لگے۔

مسلمان گو کہ بلخ پہنچ گئے تھے؛ تاہم انھوں نے وہاں کے باشندوں کے مذہب سے کوئی تعرض نہیں کیا، وہاں کے لوگ از خود اسلام کے اندر داخل ہونے لگے۔ مسلمانوں کے بعد ترک اور مغل قبائل نے بلخ میں چھاپے ماری کی مہم شروع کردی جو کہ ایرانی حکومتوں کی دہشت سے وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے۔

رفتہ رفتہ یہی مغل قبائل بلخ میں حکمرانی کرنے لگے اور وہاں کے باشندوں پر خوب ظلم و تشدد کیا اور مسلمانوں کو اندرونی کشمکش کے نتیجے میں وہاں کی سرحدوں کی جانب پیش قدمی کا موقع نہیں ملا۔

 

برمک کی وفات کے بعد اس کا بیٹا جو زردشتی مذہب کی پیروی کرتا تھا اسی نام سے مشہور ہوا۔ سن ۸۶ ہجری میں عبد الملک بن مروان کی حکومت میں قتیبہ بن مسلم نے (جو خراسان کے گورنر تھے) بھرپور عسکری قوت کے ساتھ بلخ پر چڑھائی کردی، اس جنگ میں بہت سی لونڈیاں ان کے ہاتھ آئیں جن میں سے ایک برمک ثانی کی بیوی بھی تھی

جو قتیبہ کے بھائی عبداللہ بن مسلم کے حصے میں آئی۔ چند دنوں کے بعد اہل بلخ سے صلح کا معاہدہ ہو گیا جس کے نتیجے میں تمام قیدیوں اور لونڈیوں کو واپس کر دیا گیا؛ چناں چہ برمک ثانی کی بیوی کو بھی واپس کر دیا گیا؛ تاہم وہ لونڈی عبداللہ سے حاملہ ہو چکی تھی جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام خالد تھا یہی جعفر برمکی کا دادا تھا۔

 

 

خالد بن برمک

خالد برمکی علم و فضل، فہم و دانش، اصابت رائے اور شجاعت و بلند ہمتی میں اپنے ہم عصروں سے فائق اور سیاسی معاملات میں خوب تجربہ کار تھا؛ چناں چہ پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے ابو مسلم خراسانی کی سفارش پر خالد بن برمک کو اپنا وزیر بنا لیا، سفاح کی وفات تک خالد منصب وزارت پر متمکن رہا۔ سفاح کے بعد حکومت کی باگ ڈور منصور کے ہاتھ میں آئی، اس نے خالد کے مربی و اتالیق ابومسلم خراسانی کو اپنی حکومت کے پہلے ہی سال قتل کروا دیا۔ منصور کو اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں خالد اپنے مربی کے قتل کی ناراضی کسی بغاوت کی صورت میں نہ ظاہر کردے، اس لیے احتیاطا اس نے خالد کو کسی بہانے کہیں روانہ کر دیا اور ابو ایوب کو وزارت کی کرسی سونپ دی۔

 

خالد منصب وزارت سے معزول ہونے کے بعد بھی حکومتی امور میں برابر تعاون کرتا رہا، اس نے کسی قسم کی بغاوت و سرکشی کا مظاہرہ نہیں کیا، جب عرصہ دراز تک یہی سلسلہ چلتا رہا تو منصور کو اس کے آئندہ طرز عمل سے کے حوالے سے اطمینان ہو گیا۔ چناں چہ منصور کے بیٹے مہدی کی پرورش خالد کے ہی زہر تربیت ہوئی، منصور خود چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے کی اتالیقی خالد کو جائے کہ وہ علم و فضل اور سیاسی امور کے نشیب و فراز کی واقفیت کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا تھا۔

منصور کی وفات کے بعد مہدی مسند نشیں ہوا، اس وقت بھی خالد زندہ تھا، اس کی وفات ۷۷ سال عمر میں سن ۱۶۳ ہجری میں ہوئی۔

 

 

یحیی بن خالد

خالد کی وفات کے وقت اس کے بیٹے یحیی کی عمر ۴۵ سال  تھی، یحیی کے اندر اس کے باپ کے تمام اوصاف و خوبیاں جمع تھیں، وہ منصور کے عہد خلافت ہی سے عباسی دربار سے منسلک تھا، ہادی کے عہد خلافت تک اس کو خلافت کے مختلف امور سونپے جاتے رہے جن کو اس نے بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا اور دربار خلافت میں گہری تاثیر و نفوذ پیدا کر لیا۔

مہدی نے ہارون کی تعلیم و تربیت اسی کے سپرد کی، ہارون کے اندر جو امتیازات اور خوبیاں تھیں وہ یحیی کی تربیت کی ہی کرشمہ سازی تھی۔

ہارون نے یحیی کی بیوی کا دودھ پیا تھا، اس لیے وہ یحیی کو باپ کا درجہ دیتا تھا، یحیی بھی ہارون کو بیٹا سمجھ کر ہمیشہ اس کی خیرخواہی کرتا، ہارون کے خلیفہ بننے کے پیچھے یحیی کا نمایاں کردار تھا، ہارون کو اس احسان کا مکمل ادراک تھا، وہ اس کا تذکرہ بھی کرتا اور کہتا ابا! آج میں جس مقام پر ہوں یہ سب آپ کی برکت و محنت اور حسن تدبیر کا ثمرہ ہے، بہ طور صلہ کے میں خلافت کے سیاہ و سپید کا آپ کو مالک بناتا ہوں اب یہاں جو بھی ہوگا وہ آپ کے اشاروں پر انجام پذیر ہوگا؛ چناں چہ ہارون رشید کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں جملہ امور مملکت یحیی کے زیر حکم ہی انجام پذیر ہوتے ہارون اس میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا۔

 

فضل اور جعفر

یحیی کے چار بیٹے تھے، ایام طفولیت سے ہی انھوں نے ناز و نعم اور شاہانہ زندگی بسر کی تھی، وہ سب منفرد خصوصیات و کمالات کے حامل تھے، لیکن دو بیٹے فضل اور جعفر نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر دربار میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا، ہارون باپ کی طرح ان دونوں کو بھی بھائی کا درجہ دیتا تھا۔

یحیی کی عمر ڈھل جانے پر خلیفہ نے فضل کو اس کی جگہ مسند وزارت پر بٹھایا؛ تاہم یحیی کے مقام و مرتبے سے بے اعتنائی نہیں برتی؛ بلکہ اس کی باتوں کو وہی اہمیت دی جاتی جو پہلے دی جاتی تھی۔

ہارون یحیی کے دوسرے بیٹے جعفر کی، ذہانت و فطانت، فہم و فراست، دانش مندی و تجربہ کاری اور جرات و بہادری سے بڑا متاثر تھا، دربار میں اس سے زیادہ کسی کی توقیر نہیں ہوتی تھی۔

 

ہارون کو جعفر سے بےپناہ محبت تھی وہ کوئی لمحہ اس کے بغیر چین نہیں پاتا تھا، اسی قربت کا نتیجہ تھا کہ بعد میں فضل کی جگہ جعفر کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا، خاندان برامکہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہارون رشید جو خلیفہ وقت تھا اس کو فضل سے براہ راست یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ وزارت جعفر کو سونپ دیں؛ بلکہ انھوں نے یحیی سے یہ بات کہلوائی تھی۔ جعفر اپنی وزارت کے دم پر پوری سلطنت پر حاوی ہو گیا، ہارون محض نام کا خلیفہ بن کر رہ گیا تھا، حتی کے شاہی خزانے پر بھی اسی خاندان کی اجارہ داری تھی، ہارون کو ضرورت کے وقت جعفر سے ہی روپیہ مانگنا پڑتا تھا، گویا کاروبار سلطنت سارا کا سارا خاندان برامکہ بالخصوص فضل اور جعفر کے ہاتھوں سمٹ کر رہ گیا تھا، ہارون رشید کے عہد کی بیشتر تعلیمی و صنعتی اور تمدنی ترقیات اسی خاندان کے فیض کا نتیجہ تھیں۔

 

 

برامکہ کا عروج

جعفر کا تسلط پوری سلطنت پر ایسا قائم ہو گیا تھا کہ رعایا بھی اسی کو حقیقی فرماں روا کی حیثیت سے دیکھنے لگے، جعفر کے بیٹے بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر تھے، سلطنت کے جملہ اختیارات جعفر کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے خاندان برامکہ کی شان و شوکت، قوت و اقتدار اور مقبولیت و عزت کی پرواز ثریا تک پہنچ گئی۔ جعفر ہارون رشید کے منشا کی بھرپور رعایت کرتا تھا جس کی وجہ سے ہارون نے کبھی اس کی قوت و اقتدار اور عظمت و شوکت کو شک آمیز نگاہوں سے نہیں دیکھا۔

خاندان برامکہ نے نمود و نمائش کے لیے حکومتی خزانے سے بےدریغ دولت کا اسراف کیا، اپنے مقربین کو خوب خوب داد و دہش سے نوازتے، شاعروں اور گداؤں کو بیش قیمت انعامات عطا کرتے، ان کی سخاوت پوری سلطنت میں معروف ہو گئی تھی۔

خلیفہ کے حکم پر خاندان برامکہ کے لیے دریائے دجلہ کے گرد و نواح عالی شان اور دیدہ زیب محلات تعمیر کیے گئے تھے، خاندان کی عورتوں کی خدمت گزاری کے لیے بہت ساری کنیزیں بھی تھیں۔

غرض اس خاندان کا عروج اوج کمال کو پہنچ گیا تھا، خلیفہ ان کے اقتدار کے سامنے خود کو مسلوب الاختیار پاتا تھا؛ تاہم ہنوز ہارون کے دل میں ان کے تئیں بدگمانی نہیں پیدا ہوئی تھی۔

 

 

ہارون کی برمکیوں سے بدگمانی

سن ۱۸۰ ہجری میں ہارون نے علی بن عیسی کو خراسان کا گورنر بناکر بھیجا، برمکیوں کو یہ تقرری سخت ناپسند تھی؛ چناں چہ یحیی بن خالد نے اس کی مخالفت بھی کی؛ مگر ہارون نے اس کی مخالفت کی پروا کیے بغیر علی بن عیسی کا گورنری کے منصب پر تقرر کیا، یہ پہلا موقع تھا جب ہارون نے یحیی کے منشا کے خلاف کوئی عمل انجام دیا تھا۔

چوں کہ برامکہ کا خاندان پوری سلطنت پر چھایا ہوا تھا اس وجہ سے برمکیوں نے علی بن عیسی کو پریشان کرنا شروع کر دیا اور اس کے خلاف خلیفہ کے پاس یہ کہہ کر عرضیاں بھجوانے لگے کہ علی خلیفہ کے خلاف بغاوت کرنے کی مہم کی تیاری کر رہے ہیں، ادھر علی بن عیسی پہلے ہی خلیفہ کے پاس یحیی کے دوسرے بیٹوں کی شکایات بھجوا چکا تھا کہ یہ لوگ خراسان میں بدامنی پھیلا رہے ہیں، ان شکایتوں سے ہارون کے دل میں برمکیوں کے حوالے سے شبہ پیدا ہوا اور تجسس آمیز نگاہوں سے ان کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنے لگا، معاملہ بڑا سنگین تھا کیوں کہ دونوں طرف سے شکایات موصول ہو چکی تھیں اور فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کن کی شکایتیں درست ہیں؛ چناں چہ معاملہ کو رفع کرنے کے لیے خلیفہ بذات خود رے کی جانب روانہ ہوا۔ جب ہارون رے پہنچ چکا تو علی بن عیسی نہایت مؤدب اور نیاز مندانہ حالت میں اس کے پاس حاضر ہوا اور خراسان کی پوری روداد اس کے گوش گزار کر دی کہ خراسان اور اس سے متصل صوبوں میں برمکیوں کا اقتدار ہے اور وہ اندرونی سازشیں کر رہے ہیں تاکہ خلیفہ سے ابومسلم خراسانی کے خون کا بدلہ لے سکیں۔

یہ سن خلیفہ مبہوت ہو گیا اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جس خاندان کے متعلق اس کے دل میں بدگمانی تک نہیں پیدا ہوتی تھی وہ خاندان خلیفہ کے خلاف اتنی گہری سازشیں رچ رہا ہے۔

 

علی بن عیسی نے خلیفہ کی ہمت افزائی کرکے اس کو مرو واپس بھیج دیا، یہاں فضل بن ربیع نے جو برامکہ کا مخالف تھا خلیفہ کو یہ خبر دی کہ جعفر نے یحیی بن عبداللہ کو رہا کر دیا ہے، یحیی ہارون کی حکومت کا باغی تھا جس کو ہارون نے قید کرکے جعفر کے حوالے کر دیا تھا۔

دوسرے دن جعفر جعفر دربار میں حاضر ہوا تو خلیفہ نے یحیی کا حال دریافت کیا، جعفر نے کہا کہ وہ ابھی بھی میری قید میں ہے، خلیفہ نے کہا کیا تم یہ بات قسم دیکر کہہ سکتے ہو؟ یہ سنتے ہی جعفر کو یقین ہو گیا کہ راز فاش ہو چکا ہے، چناں چہ اس نے کہا کہ یحیی سے آئندہ مجھے کسی نقصان اور خطرے کا اندیشہ نہ تھا اس وجہ سے رہا کر دیا، خلیفہ نے اس بات پر بظاہر کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور کہا کہ اچھا کیا تم نے رہا کر دیا میں خود تم کہنے والا تھا کہ اسے رہا کردو۔

خلیفہ اب برامکہ کے حوالے سے مکمل بدظن ہو چکا تھا؛ تاہم سارا اقتدار برمکیوں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے اس کے اندر یہ سکت نہیں تھی کہ وہ اس کا مقابلہ کر پاتا۔

خلیفہ چوکنا ہو چکا تھا اور برامکہ کے پنجۂ تسلط سے اپنی سلطنت کو آزاد کرنا چاہتا تھا؛ چناں چہ اس نے اپنے بیٹے کی ولی عہدی اور تینوں بیٹوں کے درمیان ملکوں کی تقسیم کے دستاویزات مرتب کرنا شروع کر دیے۔

۱۸۶ ہجری کے اواخر میں ہارون نے ولی عہدی کے لیے موتمن سے بیعت لی اور امین و مامون سے عہد ناموں پر دستخط کرائے۔ پھر ہارون حج کو روانہ ہو گیا اور خانہ کعبہ میں اس عہد نامے کو لٹکا دیا۔

 

 

جعفر کا قتل اور برامکہ کا زوال

سن ۱۸۷ ہجری میں حج سے واپسی کے موقعے پر ہارون نے ”انبار“ میں قیام کیا، جعفر بھی اس سفر میں ساتھ تھا۔ ایک روز رات کے وقت ہارون نے اپنے حاجب مسرور کو بلایا اور کہا کہ سپاہیوں کی ایک قابل اعتماد جماعت کے ساتھ جاؤ اور جعفر کو خیمہ کے دروازے پر طلب کرکے اس کا سر قلم کر دو اور اسے میرے پاس لیکر آؤ!

یہ سننا تھا کہ مسرور کے ہوش اڑ ہو گئے؛ مگر ہارون نے تاکید کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کرنے کو کہا۔

مسرور فورا سے پیشتر جعفر کے خیمے میں گیا اور اس کا سر کاٹ کر خلیفہ کی خدمت میں رکھ دیا، نیز اسی رات ہارون نے جعفر کے بھائی فضل اور اس کے باپ یحیی کو گرفتار کرواکر قیدخانے میں ڈلوا دیا، اور برمکیوں کو ان کے اعلی عہدوں و مناصب سے معزول کرکے یہ فرمان جاری کر دیا کہ جہاں کہیں بھی فضل و جعفر اور یحیی کی جائیدادیں ہیں انھیں ضبط کر لیا جائے؛ چناں چہ ایک رات کے اندر ہارون نے بڑی حکمت عملی سے برامکہ کے آفتاب اقتدار کو غروب کر دیا اور اطمینان کی گہری سانس لی۔

 

خاندان برامکہ میں سے سوائے محمد بن خالد کے کوئی بھی خلیفہ کے قہر سے نہ بچ سکا، فضل اور یحیی دونوں باپ بیٹے اندرون زندان مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے وفات پا جاتے ہیں۔

 

 

عبرت و موعظت

خاندان برامکہ کی اس انوکھی داستان میں ہمارے لیے عبرت و موعظت کے بہت سے اسباق موجود ہیں کہ ایک طرف ان کے اقبال کا سورج ایسا بلند ہوا تھا کہ بڑے بڑے معززین، اشرافیہ، امرا اور اعلی طبقے کے لوگ ان کی آستاں بوسی کرتے تھے، ان کے محلات خوبصورتی و رعنائی اور فن تعمیر کا شاہ کار تھے، دولت کی ایسی ریل پیل کہ دجلہ کے بالمقابل سونے اور چاندی کے دریا بہا کرتے، شعرا و سائلین اور رعایا ان کی فیض بخشیوں سے مالامال تھے، اور دوسری طرف جب ادبار کی آندھی آئی تو ان کے وجود کے نقوش بھی ذرات کی مانند اڑ گئے، جعفر کی ماں جن کی خدمت کے لیے چار سو کنیزیں مامور تھیں عید کے دن امام مسجد کوفہ کے گھر معمولی امداد کے لیے دست سوال دراز کر دیتی ہے۔

 

بےشک عروج و زوال اور عزت و ذلت دینے والی ذات اللہ کی ہے، یہ ناداں انسان بلندیوں کی جانب پرواز کرنے کا خواب دیکھتا ہے؛ مگر وہ بھول جاتا ہے کہ اس پتلہ خاکی کی حقیقت زمین کی طرف ہی آنا ہے۔

یہ دنیا تغیر کی آماجگاہ ہے، نہ ہی کوئی ہمیشہ بادشاہ رہتا ہے اور نہ ہی کوئی ہمیشہ محرومی کا شکار رہتا ہے، عروج و زوال، امیری و غریبی اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں، اللہ کے اس ازلی قانون کو جو سمجھ لے وہی عقل مند ہے اور اسے ہی صبر و شکر کی دولت نصیب ہوتی ہے۔

 

مراجع:

تاریخ اسلام از اکبر شاہ نجیب آبادی

تاریخ اسلام از شاہ معین الدین احمد ندوی

عربی مضمون: من ھم البرامکۃ

الھارون از عمر ابوالنصر

 

 

 

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے