اسلام میں خادموں اور مزدوروں کے حقوق
از: عبدالعلیم قاسمی دیوگھری
اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت
دین اسلام کا یہ اختصاص و امتیاز ہے کہ وہ نوع انسانی کے ہر فرد کو کامل حقوق و مراعات عطا کرتا ہے، اس کی ہمہ گیر تعلیمات ادنی سے ادنی فرد کو بھی عدل و مساوات، عزت و آزادی اور معاشرتی سطح پر تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
حقوق العباد کا تصور اسلامی تعلیمات کے اندر نمایاں مقام رکھتا ہے، وہ جہاں اسلامی تعلیمات کا اہم اور بنیادی شعبہ ہے وہیں معاشرتی ہم آہنگی، اتحاد و اتفاق، پیار و محبت اور انسانیت کی بھلائی کا ذریعہ بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث رسول میں جا بہ جا انسانوں کو ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی حقوق کے سب سے بڑے اور سچے علمبردار ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا ہے، یہی وجہ تھی کہ آپ کی سرشت میں ہی حق تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے تئیں نرمی، محبت و مودت، جذبۂ عفو و درگزر، نیک خلقی و خوش اطواری وغیرہ جیسی صفات ودیعت فرما دی تھیں، جن کے عملی مظاہر نمایاں طور پر لوگوں کے ساتھ آپ کے معاملات و تعلقات میں نظر آتے ہیں، بالخصوص غلاموں، خادموں اور ماتحتوں کے ساتھ آپ نے جو شفقت آمیز رویہ اپنایا اور حسن اخلاق کا اعلی معیار قائم کیا ہے وہ پوری انسانیت کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولا و فعلا ہر دو طریقوں سے خادموں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، خوش معاملگی، نرم رویے اور اچھے برتاؤ کا درس دیا ہے۔
نیز آپ نے یہ تعلیمات اور ان کے عملی نمونے ایسے ماحول میں پیش کیے ہیں جس پر پوری طرح جاہلیت کی روح مسلط تھی، اخلاقی اقدار کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی تھیں، ہر سو جور و ستم اور غلامی کا دور دورہ تھا اور سماجی طبقہ واریت اور نسلی عصبیت لوگوں کی سرشت کا حصہ تھی۔ ایسے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اخلاق و کردار کی غلاظتوں کو دور کیا، ہر فرد کو اس کا مقام و مرتبہ عطا فرمایا، انسانیت کے گلہ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کیا اور اخلاقی اقدار کو وہ بلندی عطا فرمائی جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
خادموں کے حقوق احادیث کی روشنی میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خادموں اور ماتحتوں کے حقوق کے حوالے سے کس قدر متفکر رہا کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں نماز جیسے اہم رکن کے ساتھ ساتھ ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین فرمائی۔ (ابوداؤد)
ذرا درج ذیل حکم مبارک پر غائرانہ نظر ڈال کر اندازہ لگائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیسا معیار قائم فرمایا، آپ ارشاد فرماتے ہیں:
”تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں؛ گو کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے؛ لہذا جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے چاہیے کہ اسے ویسا ہی کھلائے جیسا خود کھاتا ہے، ویسا ہی پہنائے جیسا خود پہنتا ہے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو؛ لیکن اگر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو تو خود اس کی مدد کر دیا کرو“ (متفق علیہ)
خطبہ حجۃ الوداع کا وہ ولولہ خیز جملہ آج بھی کائنات کو صدائے عدل دے رہا ہے، ذرا انسانیت کے محسن اعظم کے الفاظ دیکھیے، فرماتے ہیں:
”لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے، خبردار ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کسی سیاہ رنگ والے پر، کسی سیاہ رنگ والے کو کسی سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے“ (ابونعیم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ و نسل اور قوم و وطن کے مصنوعی بتوں کو پاش پاش کرکے ظلم و عصبیت کی تاریکیوں میں انصاف پروری اور وحدت انسانی کا چراغ روشن فرما دیا اور یہ اعلان کردیا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ (ترمذی)
آپ نے فضل و کمال کا معیار تقوی کو قرار دیا اور بتایا کہ انسان کی عظمت اس کے خمیر سے نہیں بلکہ اس کے ضمیر سے ہوتی ہے۔
یہ تعلیمات ہمیں صاف طور پر عدل و مساوات کا پیغام دیتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ کسی آقا کو غلام پر اور مخدوم کو خادم پر شرعا کوئی برتری حاصل نہیں ہے؛ لہذا انسان کو خود ساختہ برتری کے زعم میں گرفتار ہوکر ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ یہ باور کرنا چاہیے کہ ممکن ہے جو آدمی اس کے ماتحت ہے وہ ورع و تقوی میں اس سے اونچا ہو اور اللہ کے ہاں اس کو بلند مقام و رتبہ حاصل ہو۔
لہذا خادموں کے ساتھ ہمیشہ حسن تعامل سے پیش آنا چاہیے، آپ علیہ السلام کی تعلیمات تو ہمیں یہ تک سکھاتی ہیں کہ خادم و غلام اگر تمہارے ساتھ بدسلوکی کا مظاہرہ کرے تب بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے اور عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے، آپ کا فرمان ہے:
”اگر تمہارے غلام و خادم اچھا سلوک کریں تو قبول کرو اور اگر بد سلوکی کریں تو معاف کردو اور اگر تم پر وہ غالب آ جائیں تو انھیں بیچ دو“ (مسند الفردوس)
دور حاضر میں اگر چہ غلامیت کی لعنت ختم ہو چکی ہے؛ تاہم مزدوروں اور خدمت گزاروں کا طبقہ موجود ہے اور ان ارشادات کی روشنی میں ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔
مزدوروں اور اجرت پر کام کرنے والوں کے حقوق کے متعلق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح اور روشن تعلیمات موجود ہیں، آپ نے مزدوروں کی طے شدہ اجرت نہ دینے یا اس میں تاخیر کرنے کو اللہ کی ناراضگی کا سبب بتایا ہے؛ چناں چہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت کے دن میں خود مدعی بنوں گا، پہلا وہ آدمی جس نے میرے نام پر عہد کیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی، دوسرا وہ آدمی جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچا اور اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو اجرت پر کام کے لیے رکھا، پھر اس سے پورا کام لیا؛ لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی۔ (صحیح البخاری)
ذرا اندازہ لگائیے کہ خادموں اور مزدوروں کے حقوق میں کوتاہی برتنا کس قدم سنگین جرم ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ان حق تلفی کرنے والوں سے حقوق کا مطالبہ فرمائیں گے۔
مزدوروں کی اجرت کے حوالے یہ مشہور روایت بھی ہمیں حساس اور بیدار رہنے کی دعوت دیتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
”مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کر دو“ (ابن ماجہ)
یہ ہیں محسن انسانیت کی وہ اعلی تعلیمات جو مزدوروں کے پسینے کو بھی تقدیس عطا کرتی ہیں کہ ان کا پسینہ ان کی محنت اور قربانیوں کا گواہ ہے، گویا یہ ایسی تعلیم ہے جو انصاف پروری، انسانیت نوازی اور معاشرتی عدل کا لازوال پیغام لیے ہوئے ہے اس جملے کی گہرائی میں حقوق العباد کا اعلی ترین تصور موجود ہے۔
مزدوروں اور محنت کش طبقے کو ان کا اجرت فوری طور پر ادا کرنے میں ان کی عزت نفس کا تحفظ ہے اور اس بات کی علامت بھی ہے کہ ان کے کام اور محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں اور خادموں کو ستانے اور مارنے سے منع فرمایا ہے؛ حتی کہ ان کو برے القاب سے مخاطب کرنے کو بھی منع فرمایا ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابی (ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ) نے اپنے غلام کو کسی بات پر مارا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےحد خفا ہوئے اور تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا:
”اس غلام پر تم کو جتنا اختیار حاصل ہے اس سے زیادہ اختیار اللہ تعالیٰ تم پر رکھتا ہے۔“ (صحیح مسلم)
مطلب یہ ہے کہ اگر تم غلام کو ستانے یا مارنے پر قدرت رکھتے ہو تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ بھی تمھیں اس کی سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے۔
حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اپنے غلام پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خادموں کے ساتھ حسن تعامل پر اس قدر زور دیا ہے کہ آپ نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی فضیلت بیان فرمائی ہے؛ چناں چہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:
”اس شخص کے اندر تکبر کی خو نہیں پائی جاتی ہے جس نے خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہو“ (شعب الایمان)
یعنی یہ تواضع و انکساری اور کسر نفسی کی علامت ہے کہ کوئی انسان اپنے خادم یا مزدور کو اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلائے۔
خادم و مزدور قسم کے افراد معاشی طور پر زار و نزار ہوتے ہیں اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ان پر صدقہ کیا جائے؛ تاکہ ان کی بھی زندگی خوش معاشی اور خوش حالی کے ساتھ گزرے؛ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
”آدمی کی سب سے بہترین کمائی وہ ہے جو وہ اپنی محنت کے بل بوتے کماتا ہے اور جسے وہ اپنی ذات پر، اپنی بیوی بچوں پر اور اپنے خادموں پر خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے“ (ابن ماجہ)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خادموں پر الزام لگانے اور ان پر بددعا کرنے سے سخت منع فرمایا ہے؛ بلکہ یہ فرمایا کہ جو اپنے خادم پر جھوٹا الزام لگائے گا قیامت کے اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ (صحیح البخاری)
اس قسم کی اور بھی روایات ہیں جو مزدوروں اور خادموں کے حقوق کے تعلق سے رہنمائی فراہم کرتی ہیں ان تمام کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔
رسول اکرم کا خادموں کے ساتھ برتاؤ
رسول اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی تعلیمات کے ذریعے خادموں اور ماتحتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا؛ بلکہ آپ نے خود ان تعلیمات کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ہے؛ چناں چہ آپ اپنے خادموں کے ساتھ اس قدر اچھا برتاؤ فرماتے تھے کہ وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا خادم رہ جانے کو اپنی سعادت مندی باور کرتا تھا اور کبھی بھی آپ کو چھوڑ کر جانے پر راضی نہیں ہوتا تھا، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب ان کے بھائی جبلہ بن حارثہ ان کو لینے کے لیے آئے تو انھوں نے آزادانہ زندگی پر رسول اکرم کا خادم بنے رہنے کو ترجیح دی اور آپ علیہ السلام کو چھوڑ کر جانے پر راضی نہیں ہوئے۔ (جامع الترمذی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی خادم اور کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ (سنن ابوداؤد)
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی دس سالہ خدمت رسول کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خادموں کی ضروریات کا خیال فرماتے تھے اور ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے رہتے تھے؛ چناں چہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے مال و اولاد کی برکت کی جو دعا آپ نے فرمائی تھی اس سے بھلا کون ناواقف ہے؟
خادموں اور غلاموں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کو اگر بیان کیا جائے تو اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، سیرت طیبہ کی کتابوں میں ایسے واقعات بہ کثرت مل جائیں گے۔
یہاں مقصود بس یہ بتانا ہے کہ آپ علیہ السلام نے خادموں اور ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا ہے، آپ نے نہ صرف یہ کہ زبانی ہدایات دیے ہیں بلکہ اپنی عمل سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ سماج کا یہ طبقہ بھی عزت و انصاف کا مستحق ہے اور ان کے بھی اپنے حقوق ہیں جن کی ادائیگی میں کوتاہی برتنا بہت بڑا جرم ہے۔
ہمارا یہ دینی و اخلاقی اور سماجی فرض ہے کہ ہم ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں اتاریں کہ ان کے بغیر ایک صالح معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے جہاں دنیا دنیوی سکون اور لوگوں کی محبت حاصل ہوگی وہیں آخرت میں بھی ہمیں کامیابی اور سرخروئی نصیب ہوگی۔
Leave a Reply