حدیث کی سب سے پہلی کتاب اور مؤلف کا نام
علومِ حدیث سے ادنی مناسبت رکھنے والا طالب علم بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تدوین و ترتیب کا عمل مختلف ادوار و مراحل سے گزرنے کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا تھا، قرن اول میں قرآن کریم کے مثل فرامینِ رسول کی کتابت کا رجحان نہیں تھا۔
ابتدائی دور میں عمومی طور پر حفاظت حدیث کے حوالے سے زبان و حافظے کی قوت کا سہارا لیا جاتا رہا، اس عمل کے پس پردہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی اس فکر کا بھی دخل تھا کہ اگر احادیث کی کتابت کا چلن عام ہو جائے تو اس کے حفظ و ضبط کا خاص اہتمام نہیں ہو سکےگا، اور رفتہ رفتہ لوگوں کے سینوں سے یہ پاکیزہ علم کاغذ کے سفینوں میں منتقل ہوکر رہ جائےگا، مستزاد یہ کہ دین دشمن عناصر ان میں حذف و اضافہ کرکے تحریف کے دروازے کھولنا شروع کردیں گے، نیز قرآن کریم اور احادیث پاک کے درمیان التباس بھی پیدا ہو سکتا ہے، اس قسم کے دیگر خدشات کے بہ موجب صحابہ کرام کو احادیث کے لکھنے میں تامل تھا۔
پھر گزرتے وقت کے ساتھ شجرِ اسلام ہرا و شاداب ہوتا رہا، اس کی شاخیں دور دور تک پھیلنے لگیں اور خلافت اسلامی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا؛ نیز مسلمانوں کی قوت و شوکت بام عروج پر پہنچ گئی تو صحابہ کرام کے یہ سارے خدشات رفع ہو گئے اور بتدریج احادیث کی کتابت کا سلسلہ شروع ہوا؛ تاہم اس دور کی مسودات کا کوئی حصہ ہم تک منتقل نہیں ہو سکا۔ (قرن اول میں احادیث کی تدوین و جمع کے حوالے سے تفصیلی معلومات، مستشرقین کے اعتراضات اور ان کے جوابات کے لیے مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین حدیث“ کا مطالعہ کیا جائے)
حدیث کے پہلے مدون
تدوین حدیث باضابطہ طور پر دور تابعین میں حضرت عمر ابن عبد العزیز رحمہ اللہ کے ایما پر عمل میں آئی، جس میں امام ابن شہاب زہری اور مدینہ منورہ کے قاضی ابوبکر ابن حزم رحمہما اللہ کا بڑا کردار رہا، کہ وہیں سے کتابت حدیث کی تحریک کو ہوا ملی اور محدثین نے اس حوالے سے باضابطہ طور پر پیش قدمی شروع فرمائی؛ چناں چہ ان کے بعد ابن اسحاق، امام مالک، حماد، ہمام ابن منبہ، امام اعظم ابوحنیفہ، معمر اور عبد الرزاق رحمہم اللہ وغیرہ نے اپنی توجہ اس جانب مبذول کی اور انھوں نے نہ صرف یہ کہ الگ الگ ابواب قائم کیے؛ بلکہ تالیف و ترتیب میں عمدگی اور خوش نظمی کا خصوصی لحاظ فرمایا۔
حضرت عمر ابن عبد العزیز کے حکم کی تعمیل میں امام ابن شہاب زہری نے احادیث کے دفاتر تیار کر دیے جنھیں حضرت عمر ابن عبد العزیز نے اپنی سلطنت کے مختلف علاقوں میں بھجوا دیا۔ قاضی ابوبکر ابن حزم نے بھی متعدد کتابیں لکھیں؛ لیکن وہ کتابیں بھجوانے سے قبل ہی حضرت امیر المومنین کی وفات ہو گئی، چوں کہ قاضی ابوبکر ابن حزم کی کتابوں کی رسائی حضرت امیر المومنین تک نہ ہو سکی اس وجہ سے احادیث کی تدوین و جمع کا سہرا حضرت ابن شہاب زہری کے سر بندھ گیا؛ چناں چہ امام مالک، امام عبد العزیز دراوی، حافظ ابن حجر اور علامہ سیوطی رحمہم اللہ وغیرہ نے امام ابن شہاب زہری کو حدیث کا مدون اول قرار دیا۔ امام بخاری کی رائے مختلف ہے وہ قاضی ابوبکر ابن حزم کو مدون اول قرار دیتے ہیں۔
حدیث کی سب پہلی کتاب
باضابطہ طور پر حدیث کی ایسی کتاب جس میں نقد و جرح کے ابتدائی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے احادیث کو جمع کیا گیا وہ امام مالک رحمہ اللہ کے قلم کے سے معرض تصنیف میں آئی، جس کو ”موطا“ کا نام دیا گیا، اس کتاب کے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”روئے زمین پر کتاب اللہ کے بعد موطا مالک سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔“
علامہ ابوبکر ابن العربی کے بقول موطا ہی ”نقش اول اور بنیادی کتاب ہے،“۔
امام مالک نے اس کتاب میں سترہ سو بیس احادیث کو احادیث کے ذخیروں سے منتخب فرماکر جمع کیا تھا اور چوں کہ وہ فقیہ تھے اس وجہ سے بیشتر احادیث فقہی مسائل سے تعلق رکھتی تھیں۔
امام مالک اپنے شاگردوں کو موطا کی احادیث سنایا کرتے تھے اور ان کے شاگرد ان احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کرتے تھے، تقریبا سولہ نسخے جو ان کے شاگردوں نے مرتب کیے تھے مشہور ہوئے جن میں دو نسخوں کو شہرت عام ملی، جن میں سے ایک ابومحمد بن یحیی بن کثیر مصمودی اندلسی کا نسخہ ہے اور دوسرا امام ابوعبداللہ محمد بن حسن شیبانی کا نسخہ ہے، آخر الذکر میں دیگر محدثین سے بھی روایتیں لی گئیں ہیں؛ تاہم بیشتر روایات امام مالک سے ہی لیے گئے ہیں۔
حدیث کی سب سے صحیح کتاب
اس کے بعد حدیث کے مجموعے مسانید وغیرہ کے طرز پر تیار کیے جاتے رہے، جن میں صحیح و ضعیف اور ہر قسم کی احادیث موجود تھیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس زمانے میں موجود مجموعوں کو دیکھا تو ان کے دل میں ایسا مجموعہ تیار کرنے کا داعیہ پیدا ہوا جو صرف صحیح احادیث پر مشتمل ہو، اس ارادے کی تائید ان کے استاذ اسحق بن راہویہ نے کردی تو امام بخاری اس مجموعے کی تیاری میں مشغول ہوئے اور تقریبا سولہ سال عرق ریزی و جان کاہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا مجموعہ تیار کیا جسے کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ حاصل ہوا، جسے ہم ”صحیح البخاری“ کے نام سے جانتے ہیں۔
بعد کے محدثین مثلا امام مسلم و ترمذی وغیرہ نے موطا مالک اور صحیح بخاری پر اپنی کتابوں کی بنیاد رکھی اور ابواب فقہیہ کے طرز پر اپنی کتابیں تصنیف کیں۔
خلاصہ کلام
اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کے مدون اول بیشتر علما کی رائے کے مطابق امام ابن شہاب زہری ہیں۔ اور باضابطہ طور پر ابواب فقہیہ کے طرز پر احادیث کے نقد و جرح کا اہتمام کرتے ہوئے جو کتاب تصنیف کی گئی وہ امام مالک کی موطا تھی، جس کی احادیث کے دو نسخے داخل درس نظامی بھی ہیں، پھر اسی طرز پر صحیح ترین احادیث کا جو مجموعہ تیار کیا گیا وہ امام بخاری کی شہرہ آفاق تصنیف” صحیح البخاری“ ہے، جس کا اصل نام ”الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سننہ و ایامہ“ ہے۔