جھوٹ کی مذمت پر 6 احادیث

جھوٹ کی مذمت پر 6 احادیث

جھوٹ کی مذمت پر 6 احادیث

جھوٹ کی مذمت پر 6 احادیث

 

جھوٹ کی مذمت پر احادیث بہت سی وارد ہوئی ہیں، جن میں جھوٹ کی قباحت و شناعت اور اس کے موجب ہلاکت ہونے کو بیان کیا گیا ہے، جھوٹ انسان کے چہرے پر ایک بدنما داغ کے طور پر ابھرتا ہے جو سچائی کی روشنی کو گہنا کر دیتا ہے، اور اعتماد کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتا ہے، جھوٹ کی زبان اگر چہ شیریں ہوتی ہے لیکن اس کا انجام انتہائی ترش ہوتا ہے، اور سچ اگر چہ کڑوا ہوتا ہے لیکن اس کا انجام شیریں اور خیر کا باعث ہوتا ہے۔

جھوٹ ایک پردہ ہے جو حقیقت کو چھپاتا ہے اور سچ وہ آئینہ ہے جس میں حقیقت کا شفاف عکس نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ کے رسول، دنیا کے سب سے سچے انسان اور سب سے بڑی سچائی بیان کرنے والے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو جھوٹ جیسے فعل شنیع سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے، جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اپنانا نہ صرف ہمارا دینی فریضہ ہے؛ بلکہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، اس ذمہ داری کا احساس و شعور پیدا کرنے کے لیے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند سدا بہار اقوال پیش کر رہے ہیں، جن میں ہمارے لیے ہدایت و رہبری کے انگنت اسباق موجود ہیں۔

 

 

جھوٹ کی مذمت

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إيَّاكُمْ والْكَذِبَ، فإنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إلى الفُجُورِ، وإنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إلى النَّارِ، وما يَزالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ ويَتَحَرَّى الكَذِبَ حتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذّابًا. (رواہ مسلم عن ابن مسعود)

 

ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم جھوٹ سے بچو؛ کیوں کہ جھوٹ گناہوں کے راستے پر لے جاتا ہے، اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا طلب گار رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

تشریح: اس حدیث پاک کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جھوٹ سے نفرت دلائی ہے۔ جھوٹ کسی بھی بات کو خلاف واقعہ بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ انسان کو فجور کے راستے پر لے جاتا ہے، فجور کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل جائے، آدمی جب مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کرتا رہتا ہے تو اللہ کے یہاں اس کے جھوٹا ہونے کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے۔

 

مذاق میں جھوٹ

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ويلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بالحدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ القوْمَ فيَكَذِبُ ويلٌ لَهُ ويلٌ لَهُ. (رواه الترمذي عن معاوية بن حيدة القشيري)

 

ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بربادی ہو اس شخص کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ لوگ اس کی وجہ سے ہنسیں، ہلاکت ہے اس کے لیے، ہلاکت ہے اس کے لیے!

تشریح: اس حدیث پاک میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق کے طور بھی جھوٹ بولنے کو منع فرمایا ہے، خود سے لطیفے گھڑکر اور جھوٹے واقعات بیان کرکے لوگوں کو ہنسانا سخت منع ہے۔ مزاح و خوش طبعی اگر شرعی اور اخلاقی دائرے میں رہ کر کیے جائیں اور کوئی جھوٹ بات بیان نہ کی جائے تو یہ جائز ہے۔

 

 

جھوٹ کی سزا

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أتَيانِي، قالا: الذي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذّابٌ، يَكْذِبُ بالكَذْبَةِ تُحْمَلُ عنْه حتَّى تَبْلُغَ الآفاقَ، فيُصْنَعُ به إلى يَومِ القِيامَةِ. (رواہ البخاری عن سمرۃ بن جندب)

 

ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے، انھوں نے کہا: جس شخص کو آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جا رہا تھا وہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا تھا، جو ایک بات کو لیتا تھا اور ساری دنیا میں پھیلا دیتا تھا؛ لہذا قیامت تک اس کے ساتھ یہی معاملہ کیا جاتا رہےگا۔

تشریح: حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا، جس میں بہت سے واقعات پیش آئے، ان میں ایک واقعہ یہ تھا کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کا جبڑا چیرا جا رہا تھا، جب آپ نے اس کے متعلق فرشتوں سے پوچھا تو فرشتوں نے بتایا کہ اس کو یہ سزا اس وجہ سے دی جا رہی ہے کہ وہ دنیا میں بہت جھوٹ بولتا تھا، اور جھوٹی بات سنتا اور پھر ہر ایک کے سامنے بیان کرتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کے لیے یہ سزا مقرر کی ہے کہ اس کے جبڑا چیرا جاتا رہے۔

 

 

جھوٹے کی محرومی

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثَلاثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَومَ القِيامَةِ ولا يُزَكِّيهِمْ، قالَ أبو مُعاوِيَةَ: ولا يَنْظُرُ إليهِم، ولَهُمْ عَذابٌ ألِيمٌ: شيخٌ زانٍ، ومَلِكٌ كَذّابٌ، وعائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ. (رواه مسلم عن أبي هريرة)

 

ترجمہ: تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائیں گے اور نہ ان کو پاک کریں گے (ابو معاویہ راوی کہتے ہیں) اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا حکمران اور تکبر کرنے والا صاحب عیال محتاج۔

تشریح: اس حدیث میں جن تین قسم کے لوگوں کے لیے وعید وارد ہوئی ہے ان میں سے ایک جھوٹا حکمران بھی ہے، یعنی ایسا حکمران جو کثرت سے اپنی رعایا کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے، اور دین و دنیا کے معاملے میں ان کو دھوکا دیتا ہے، اس میں ہر وہ آدمی داخل ہے جس کو مسلمانوں کا کوئی معاملہ سونپا جائے اور وہ اپنے کسی ذاتی منفعت کے پیش نظر کذب بیانی سے کام لینے لگے۔

 

 

منافق کی علامت

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ. (رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ)

 

ترجمہ: منافق آدمی کی تین علامتیں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدے کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب امانت دار بنایا جائے تو خیانت کرے۔

تشریح: اس حدیث میں نفاق عملی کی تین علامتیں بیان کی گئی ہیں، نفاق عملی اگر چہ کفر نہیں ہے؛ لیکن گناہ کبیرہ ہے، ان تین علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ جب انسان بات کرے تو جھوٹ بولے، یعنی جھوٹ بولنا منافقین کا شیوہ ہے یہ کسی مومن کا طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔

 

 

جھوٹ سے نفرت

ما كان خُلُقٌ أَبْغَضَ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم من الكَذِبِ، ولقد كان الرجلُ يُحَدِّثُ عند النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم بالكِذْبَةِ، فما يَزَالُ في نفسِهِ، حتى يَعْلَمَ أنه قد أَحْدَثَ منها توبةً. (رواه الترمذي عن أم المومنين عائشة)

 

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی عادت ناپسندیدہ نہیں تھی، ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بولتا تو آپ کے دل میں وہ ایسا اثر چھوڑتا کہ اس شخص کے متعلق اس وقت تک سوچتے رہتے جب تک یہ نہ جان لیتے کہ اس نے توبہ کر لی ہے۔

تشریح: اس حدیث پاک میں صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ کو سب سے زیادہ ناپسند فرماتے تھے اور اگر کوئی آپ کے پاس جھوٹ بولتا تو آپ کی طبیعت پر یہ بہت زیادہ گراں گزرتا اور آپ کے دل میں رہ رہ کر وہی بات آتی رہتی حتی کہ آپ کو علم ہو جاتا کہ اس شخص نے توبہ کر لی ہے، اس سے معلوم ہوتا کہ اللہ کے نبی کو جھوٹ سے کس قدر نفرت تھی۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے