تصور کی طاقت
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
14 جمادی الاخری 1446ھ 16 دسمبر 2024ء
میں "ہائٹ فوبیا” کا بیمار ہوں، معمولی بلندی سے بھی نیچے نہیں دیکھ سکتا، کسی کے اسکائی کرتب کی بھی تاب نہیں، مجرد فوٹو دیکھ کر میری ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، دبئی مول پر کچھ فضائی سرگرمی ہے، زائرین اسے خوب انجوائے کرتے ہیں، میرے رفیق کو اس میں دل چسپی ہوئی، وہ اس کی تفصیلات میں گیا، ٹکٹ بھی مہنگا ہے، ناچیز نے اس کو یہ کہہ کر وہاں سے ہٹایا کہ اگر یہ بر عکس مجھے ادائیگی کریں تب بھی تیار نہیں اور تمھیں بھی اجازت نہیں دے سکتا، اس ایڈوانچر کے بعد تم میرے لیے بھوت بن جاؤگے۔
مجھے بلندی سے گرنے کا وہم ہوتا ہے، دو منزلہ گھر کی بالکونی پر نہیں آسکتا، پاؤں کی لرزش بے قابو ہو جاتی ہے، صابر بھائی اور راقم سطور کے درمیان فاصلاتی سسرال، قدر مشترک ہے، انھوں نے ہریانہ سے آکر بنگلور میں شادی کی اور میں نے یہی خطرہ بجنور سے چل کر مول لیا، صابر بھائی اب دبئی میں شاد وآباد ہیں، ان کا فلیٹ برج خلیفہ کے محاذات میں ہے، درمیان میں طویل خلیج ہے، جس کا بہتا پانی مصنوعی روشنیوں میں رواں سونے اور چاندی کا تخیل پیدا کرتا ہے اور دبئی کی کشش کو قیامت خیز بناتا ہے، یہ خلیج اور اس کے دونوں طرف بل کھاتی عمارتیں، آسمان سے محو سرگوشی ٹاور اور لہراتی روشنیاں دبئی کی جان ہیں۔
ایک روز صابر بھائی گھر لے گئے، ان کا فلیٹ بہت اوپر ہے، سامنے برج خلیفہ بالکل منہ پر مسکراتا ہے، فلیٹ کے ہال اور ایک روم سے نظارے کا مزہ لے سکتے ہیں اور یہ ہم کر بھی رہے تھے کہ انھوں نے ایک کمرے کی بالکونی میں طلب کیا، یہ بالکونی خلیج کے بہتے پانی پر جھانکتی ہے، نظارہ دیدنی تھا؛ مگر میرا ہائٹ فوبیا فعال ہوگیا، میزبان کا اصرار اور مہمان کی کمزوری برسر پیکار رہے، آخرش ہم نے اس حسن یا رعب کو اس طرح انجوائے کیا کہ ایک پاؤں بالکونی میں رکھا اور دوسرا بدستور کمرے میں تھا، میں اس دھڑکے پر قابو نہیں پا سکا کہ بالکونی گر جائے گی، اس تماشے کے دوران اختلاج قلب برقرار رہا جو میزبان کے لیے سامان حیرت وتعجب تھا۔
ایک دفعہ میں بمبئی جا رہا تھا اور ٹیک آف کے وقت، ساعتِ موعود کے وظائف پڑھ رہا تھا، میرے دائیں طرف ایک سکھ بیٹھا ہوا تھا، فلائٹ نے پرواز بھری تو سردار نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، استفسار پر کہنے لگا کہ برا نہ مانیں مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے، آپ کچھ پڑھ رہے ہیں، میں بمبئی تک آپ کو پکڑے رہنا چاہتا ہوں، وہ منزل تک میرا ایک ہاتھ تھامے رہا، میں اسے یہ بتا کر مزید خوف زدہ کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس نے جس کا سہارا لیا ہے وہ زیادہ ڈرا ہوا ہے۔
میں ونڈو سیٹ سے گریز کرتا ہوں، کنارے کی سیٹ کو ترجیح دیتا ہوں، ہوائی سفر چوں کہ ناگزیر ہے، سو اونچائی فوبیا کا حل میں نے یہ نکالا ہے کہ باہر کی طرف بالکل نہیں دیکھتا، قوی مدرکہ اور جمیع حواس کو جہاز کے اندرونی کیبن تک محدود کر لیتا ہوں، اس پر اتنا دھیان صرف کرتا ہوں کہ پلین کا خیال دھندلا ہو جاتا ہے اور ایک بڑے ہال کا خاکہ جم جاتا ہے، یہ تصور کی طاقت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے بس اسی کا مطالبہ کیا ہے، وہ بخاری کی روایت میں فرماتے ہیں کہ عبادت میں یہ خیال جماؤ کہ خدا کو دیکھ رہے ہو، بس دھیان لگانا ہے، توجہ صرف کرنی ہے، یہ سوچتے جاؤ کہ خدا کو دیکھ رہے ہو، ایک ریاضت کے بعد واقعی دیکھ لوگے، بلا شبہ تصور حیران کن وسیلہ ہے۔