بیوی کی عزّت کیجیے
محمد رضی الاسلام ندوی
دفتر میں اپنے کاموں میں مصروف تھا کہ استقبالیہ سے فون آیا : ” ایک جوڑا آپ سے ملنا چاہتا ہے اور کونسلنگ کا خواہش مند ہے – “ میں نے کہا : ” بھیج دیجیے – “
دونوں آئے – صاحب لنگی پہنے ہی چلے آئے تھے اور عورت برقع میں تھی – میں نے کہا : فرمائیے – شوہر نے بولنا شروع کیا : ” میں اپنی شادی شدہ زندگی سے عاجز آچکا ہوں – بیوی کوئی کہنا نہیں مانتی – میں اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں کہ اب یہ رشتہ نہیں چل سکتا – میں نے رات ہی ایک طلاق دے دی ہے – بیوی نے کہا کہ مرکز چلیے – اس کے کہنے پر میں آگیا ہوں – “
میں نے نکاح کے بارے میں ابتدائی باتیں دریافت کیں – معلوم ہوا کہ نکاح 15 برس قبل ہوا تھا ، دو بچے ہیں – صاحب دہلی میں گورنمنٹ ملازم ہیں – بیوی کی تعلیم واجبی ہے – صاحب کو اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ضرورت سے زیادہ گھمنڈ ہے – وہ کسی معاملے میں بیوی کی ذرا بھی دخل اندازی پسند نہیں کرتے ، جب کہ بیوی چاہتی ہے کہ ہر بات میں اس سے مشورہ کیا جائے اور اس کی بات سنی جائے –
نکاح کے بارے میں میرے مزید دریافت کرنے پر صاحب نے کہا : ” ماں باپ نے میرا نکاح میری کم عمری میں کردیا تھا ، کئی برس کے بعد رخصتی ہوئی – میری بیوی بالکل جاہل ہے مجھے ذرا بھی پسند نہیں – “
میں نے کہا : ” یہ سب باتیں نکاح سے پہلے آپ کے ماں باپ کو سوچنے کی تھیں کہ وہ آپ کے لیے کتنی تعلیم یافتہ بیوی لائیں – آپ کو قبول کرنے سے پہلے معلوم کرلینا چاہیے تھا کہ لڑکی کی تعلیم کتنی ہے؟ آپ نے قبول کرلیا ، نکاح کو 15 برس سے زیادہ گزر گئے ، اب آپ پر بیوی کی جہالت شاق گزر رہی ہے – “
بیوی نے کہا : ” یہ مجھے بات بات پر جاہل کہتے ہیں – اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہتے ہیں-
میں نے دریافت کیا : ” اور کیا کہتے ہیں؟ “
اس نے کہا : ” یہ مجھے رنڈی (طوائف) کہتے ہیں – میں ان سے کہتی ہوں کہ کوئی رنڈی کو لاتا ہے تو اسے بھی عزّت سے رکھتا ہے – میں تو بیوی ہوں – “
میں شرم سے پانی پانی ہوگیا – کیا کوئی شریف شخص اپنی بیوی کو رنڈی کہہ سکتا ہے ؟! میں نے ان کی طرف تعجب سے دیکھا اور پوچھا : ” کیا آپ رنڈی کے معنیٰ جانتے ہیں؟ “
کہنے لگے :” ہاں میں نے یہ لفظ کہا ہے – میں اس کے معنیٰ جانتا ہوں – لیکن یہ تو دریافت کیجیے کہ میں نے یہ کیوں کہا ہے؟ “
میں نے جواب دیا : ” مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ نے کس پس منظر میں یہ لفظ کہا ہے؟ بیوی نے چاہے جتنی بڑی غلطی کی ہو ، لیکن وہ اس کی مستحق نہیں کہ اسے رنڈی کہا جائے اور اس کے بارے میں یہ بات وہ شخص کہے جو اس کا سب سے قریبی اور محافظ ہو – “
صاحب نے کہا : ” اسے بچوں کا بالکل خیال نہیں – ان کی صحت کی بالکل پروا نہیں – 12 بجے رات میں انہیں کھانا کھلانے لگتی ہے – اسے بالکل پتہ نہیں کہ Nutrition کے کیا اصول ہیں؟ “
عورت نے کہا : ” میں نے بچوں کو پال پوس کر اتنا بڑا کردیا – میں نہیں جانوں گی کہ انہیں کب اور کتنی غذا کی ضرورت ہے؟! دراصل بچے رات میں اٹھتے ہیں تو انہیں بھوک لگتی ہے ، کچھ کھانے کو مانگتے ہیں ، اس لیے انہیں کھلا دیتی ہوں – “
میں نے عرض کیا : ” کتنی ماؤں نے Nutrition کا کورس کیا ہے اور اس کے مطابق وہ کیلوریز ناپ کر بچوں کو غذا دیتی ہیں؟ پیدائش کے بعد ہی سے ہر ماں جانتی ہے کہ بچے کو کتنی غذا دینی ہے – جب بچوں کو بولنا نہیں آتا تب وہ ان کو دودھ پلاتی اور کھانا کھلاتی ہے – اسے کسی کورس سے گزارنے کی ضرورت نہیں ہے – “
صاحب کہنے لگے : ” اسے ماہانہ خرچ کے 25 ہزار روپے دیتا ہوں – یہ کہتی ہے کہ اس میں پورا نہیں ہوتا ، اور دیجیے – میں کہتا ہوں : اسی میں کام چلاؤ – “
میں نے کہا : ” اگر بیوی کہتی ہے کہ اتنا کفایت نہیں کرتا تو یہ دریافت کرنے میں کیا حرج ہے کہ اتنا پیسہ کہاں خرچ ہوجاتا ہے ؟ اگر اس کی بیان کردہ تفصیل سے اطمینان ہوجائے تو مزید دے دیجیے ، ورنہ مت دیجیے – “
صاحب نے خود ہی کہا : ” بچے بدتمیز ہورہے ہیں ، بہت شرارت کرتے ہیں ، آپس میں مار پیٹ کرتے ہیں ، کہنا نہیں مانتے ، سب ماں کے بگاڑے ہوئے ہیں – “
میں نے عرض کیا : ” بچوں میں اگر کوئی بگاڑ آرہا ہے تو اس کا الزام صرف ماں پر دھرنا مناسب نہیں ، اس میں ماں باپ دونوں کا قصور ہے – “
صاحب نے کہا : ” بچے اپنی ماں کے موبائل پر الٹی سیدھی چیزیں دیکھتے ہیں ، ان کی نگرانی کے لیے میں نے اپنے موبائل میں ایک ایسا ایپ ڈال لیا ہے جس سے ان کی نگرانی کی جاسکے – “
میں نے کہا : ” یہ آپ نے غلط کام کیا کہ بیوی کی اجازت کے بعد اس کے موبائل کی نگرانی کرنے لگے – بچوں کی نگرانی کرنی تھی تو انہیں الگ موبائل دلا دیتے ، پھر اس کی نگرانی کرتے – آپ نے بیوی کے دل میں شک ڈال دیا کہ آپ کو اس پر اعتماد نہیں ہے – آپ غائبانے میں اس کی نگرانی کررہے ہیں – “
بیوی نے کہا : ” میں نے اس پر اعتراض کیا تو انھوں نے موبائل چھین لیا ہے – “
صاحب نے کہا : ” گھر میں میری کوئی عزت نہیں ہے – میں نوکر جیسا ہوکر رہ گیا ہوں – “
میں نے کہا : ” جو باتیں آپ نے خود بتائی ہیں وہ نوکروں جیسی تو نہیں ہیں – آپ گھر کے ہر فرد کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں – کیا کہیں نوکر اتنا بااختیار ہوتا ہے – “
انھوں نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ شریعت کے مطابق مجھے میرے حقوق ملیں – “
میں نے کہا : ” آپ شریعت کو خواہ مخواہ درمیان میں لا رہے ہیں – آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنی مرضی کے مطابق حقوق ملیں – دوسرے آپ کے اشاروں پر چلیں – شریعت تو کہتی ہے کہ شوہر بیوی کا احترام کرے ، اس کے ساتھ محبت سے پیش آئے ، اس کے ساتھ بدزبانی نہ کرے ، اس کی ضرورتوں کا خیال رکھے اور دونوں مل کر اولاد کی پرورش کریں اور انہیں خوش گوار ماحول فراہم کریں – “
یہ لوگ بڑی دیر تک بیٹھے رہے – عورت بھی بہت بولنے والی تھی – درمیان میں وہ رونے بھی لگتی تھی – میں نے اسے سمجھایا کہ کچھ قوّتِ برداشت پیدا کرو – شوہر کی ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں – بہت سے مسائل خاموشی سے حل ہوجاتے ہیں – شوہر کی بس ایک ہی ضد تھی – ” میں جیسا کہوں ویسا ہی یہ لوگ کریں -“ میں یہ کہتا ہوا اٹھ گیا : ” آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے ایک بے زبان گائے پالی ہے ، جسے ذرا بھی چوں چرا کرنے کا حق نہیں ، جب کہ آج کے زمانے میں یہ ممکن نہیں ہے – “