سوال: کیا خدا اتنا بڑا پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے؟
از: عبداللہ ممتاز قاسمی
اگر بنا سکتا ہے تو اٹھانے سے عاجز اور اگر نہیں بنا سکتا ہے تو تخلیق سے عاجز۔ اور خدا عاجز تو ہو نہیں سکتا۔ لہذا اس ضابطے سے یہ ثابت ہوا کہ خدا کا وجود ہی نہیں ہے۔
جواب: ایک طالب علم نے لاء کالج سے تعلیم حاصل کی اور اس نے شرط لگائی کہ وہ فیس تب ادا کرے گا جب وہ اپنا پہلا کیس جیت جائے گا ؛ لیکن اس شخص نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کبھی کوئی کیس ہی نہیں لڑا۔ چناں چہ کالج نے اس کے خلاف فیس کی ادائیگی میں کوتاہی کا کیس کیا۔ عدالت میں اس نےطالب علم نے اپنا کیس لڑا اور جیت گیا ، عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا کہ جب اس نے اب تک کوئی کیس ہی نہیں لڑا تو بھلا فیس کیوں ادا کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس نے یہ مقدمہ تو جیت لیا، لہذا اسے اب فیس ادا کرنا چاہیے؛ لیکن معاملہ یہ بھی ہے کہ کالج اس کے فیس اد انہ کرنے کا مقدمہ ہار چکا ہے اور عدالت نے بھی فیس ادا نہ کرنے کا حکم دیا ہے، تو پھر وہ اسے فیس ادا کیوں کرے گا؟
تین دوست ریگستان میں پھنس گئے، تینوں کے پاس صرف ایک ایک بوتل پانی تھا، دو نے اپنے حصے کا پانی پی لیا ۔ تیسرے کے پاس پانی موجود تھا۔ ان میں سے ایک نے پانی والے دوست کو مارنے کے مقصد سے چپکے سے اس میں زہر ملا دیا۔ دوسرے کو بھی اس سے دشمنی تھی، اس نے چپکے سے اس کے بوتل میں سوراخ کردیا، جس کی وجہ سے سارا پانی بہہ گیا اور وہ پیاس سے مرگیا۔
معاملہ عدالت میں گیا۔ ان دونوں دوستوں پر قتل کا مقدمہ چلا۔ پہلے نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اسے مارنے کے مقصد سے اس کے پانی میں زہر ملایا؛ لیکن اس نے زہر پیا تو نہیں جس سے اس کی موت ہوتی۔ اس لیے سبب قتل پیاس ہے۔ دوسرے نے کہا کہ میں نے تو اس کے زہر آلود پانی کو بہاکر اس پر احسان کیا کہ اگر وہ اس پانی کو پیتا تو مر جاتا۔ ٹھیک ہے کہ وہ پیاس کی وجہ سے مرا ہے؛ لیکن ہم نے اس پانی کو بہایا ہے جو زہر آلود تھا جس کے پینے سے اس کی موت یقینی تھی، اس لیے قاتل میں نہیں ہوں۔ اب ایسے میں عدالت سبب قتل زہر آلود پانی کو قرار دے جو اس نے پیا ہی نہیں یا اس پانی کے بہا دینے کو کہ جس کو اگر وہ پیتا تو مرجاتا؟!
کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ دنیا میں انصاف ناپید ہے؟قانون کی کتابوں کا کوئی وجود نہیں؟ عدالت اور منصف کا وجود فرضی ہے؟ ظاہر ہے ایسا سمجھنے والا احمق ہی ہوگا۔
اسے پیراڈاکس کہتے ہیں۔ یہ محض لفظی کھیل ہوتا ہے، اس سے کسی چیز کو ثابت یا انکار نہیں کیا جاتا۔ اسے اور بھی آسان لفظوں میں اس طرح سمجھیں کہ دنیا کے تمام ماہرینِ ریاضی مل کر اگر چار کونوں والا سرکل بنانا چاہیں تو کیا یہ ممکن ہے؟ کیا کوئی عطر فروش بدبو والا خوش بو بناسکتا ہے؟ ظاہر ہے چار کونوں والا سرکل اور بدبو والے خوشبو کا پایا جانا ممکن ہی نہیں ہے، اس میں عقلی تضاد ہے، تو کیا مطلب کہ عطرفروش اور ماہرین ریاضی کا دنیا میں کوئی وجود نہیں؟
ایک اور مثال لیجیے۔ ٹائم ٹراویل کو بیش تر سائنس دان، بشمول اسٹیفن ہاکنگ تھیوریکلی ممکن مانتے ہیں؛ بلکہ اسٹیفن ہاکنگ نے ٹائم ٹراویلرز کے لیے کھانے کی دعوت بھی منعقد کی تھی۔ یعنی ان سائنس دانوں کے بقول اگر ایسی مشینیں /راکٹس وغیرہ ایجاد ہوجائیں جو لائٹ کی رفتار سے بھی زیادہ تیز رفتار ہو تو انسان کے لیے ماضی میں سفر کرنا ممکن ہوگا۔اب پیراڈکس سمجھیں:
اگر واقعتا ایسی کوئی برق رفتار مشین کا ایجاد ہوگیا جو لائٹ کی رفتار سے بھی تیز ہواور آپ سفر کرکے سوسال ماضی میں چلے گئے۔ وہاں آپ کے دادا کہیں کھیلتے کودتے ہوے آپ کو مل گئے اور آپ نے انھیں قتل کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب آپ کے دادا بچپن میں ہی انتقال فرما گئے تو آپ کے ابا پیدا ہی نہیں ہوے اور جب ابا پیدا ہی نہیں ہوے تو آپ کا پیدا ہونا بھلا کیسے ممکن ہے؟ اور جب آپ پیدا ہی نہیں ہوے تو پھر آپ کے دادا کو قتل کس نے کیا؟
یہ پیرا ڈاکس ہے، اس پیراڈکس کے باوجود بیش تر سائنس دان ٹائم ٹریول کو ممکن مانتے ہیں۔ پھر اس پتھر اٹھانے والے پیراڈاکس کی وجہ سے خدا کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا صرف ممکنات پر قادر ہے، نا ممکنات پر قادر نہیں ۔ جیسے خدا خود کو قتل نہیں کرسکتا، خدا اپنا مثل نہیں بناسکتا وغیرہ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ امکان اور محال یہ انسانی اصطلاحات ہیں، وہ اپنی فہم کے مطابق ایک چیز کو ممکن اور دوسری چیز کو ناممکن کہتا ہے۔ خدا کو انسانی فہم (یعنی ممکن ومحال) کے معیار پر کیسے تولا جاسکتا ہے؟ مثلا دو سو سال پہلے فون پر بات کرنا، لائیو کاسٹ ہونا اور ہزاروں کلو میٹر کا سفر گھنٹوں میں طے ہوجانا یقینا محال تھا۔ اب یہ سب نہ صرف ممکن ہے؛ بلکہ عملا اس کا وجود ہے۔ ایسے ہی جس کو انسان ابھی محال سمجھتا ہے، بعد میں وہ ممکن ہوجائے، مثلا خدا کے لیے اپنا مثل بنانا یا خود کو مار ڈالنا (نعوذباللہ) وغیرہ جسے انسانی فہم ناممکن سمجھتا ہے، بعد میں شاید وہ ممکن ہوجائے ۔
جواب عرض ہے کہ محال کی دو قسم ہوتی ہے، ایک محال عادی اور دوسرا محال عقلی۔ محال عادی یقینا ممکن ہے، جیسے: آئندہ سالوں میں چاند اور مریخ پر سفر ایسے ہی ہوجائے جیسے ہندوستان سے سعودی اور امریکہ کا سفر، ایلین ہماری بستی میں آلو پیاز بیچنے آیا کرے، انسان کو کوئی ایسا ٹیبلیٹ کھلادیا جائے کہ زندگی بھر کھانا کھانے کی ضرورت نہ پڑے، ایسے ادویات کا ایجاد ہو جائے کہ آدمی ہزار سال زندہ رہا کرے وغیرہ، یہ فی الحال کے لیے محال ہے؛ لیکن مستقبل میں بھی محال ہو، یہ ضروری نہیں اور دوسری قسم محال عقلی ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں کہ کوئی چار کونوں والا سرکل بنا دے، کوئی مسلمان کافر ہو، کوئی بزدل بہادر ہو وغیرہ.
Leave a Reply