ایکشن پروگرام اور ہمارے مکاتب و مدارس
از: مولانا نسیم ندوی میواتی
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
(سرفراز بزمی)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں عموما اور میوات میں خصوصا مکاتب قرآنیہ میں ایک انقلابی تعلیمی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے، دس پندرہ برس پہلے جب ہم مکاتب/مساجد میں پڑھا کرتے تھے تو تعلیم کا معیار انتہائ ناگفتہ بہ تھا۔ مدرسہ میں جاکر از سر نو سب کچھ پڑھنا پڑتا تھا، بندہ نے خود گاؤں کے مکتب میں مکمل قرآن پڑھ لیا تھا لیکن دھلی مدرسہ جانے کے بعد دوبارہ یسرنا القرآن ہاتھ میں تھما دی گئی تھی۔ مگر اب الحمد للہ تعلیمی معیار میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے اور تعلیم کے جدید طریقوں کو بھی اختیار کیا جا رہا ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ تعلیم کی اس بہترین تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمارے مکاتب میں کچھ ماڈرن مسلم اسکولوں کی دیکھا دیکھی غیر مناسب چیزیں بھی در آئیں ہیں جنکے ازالہ کی شدید ضرورت ہے۔
ان امور میں سے ایک بڑا مرض ایکشن اور اداکاری پر مبنی ایکسپریشن ہیں جو اب ہمارے مکاتب و مدارس میں دھیرے دھیرے رسم بد کی طرح رواج پارہے ہیں، متعدد مقامات پر ہم نے خود اپنی گناہگار آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ غیر محارم کے سامنے باشعور لڑکیاں شیریں و سریلی آواز میں پوری جسمانی ایکٹنگ (اداکاری) کے ساتھ نعتیں پڑھ رہی ہیں، یا ایک بچی نعت پڑھتی ہے تو دیگر لڑکیوں کی ٹیم اس نعت کے الفاظ کے مطابق ایکٹنگ کر رہی ہوتی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح فلمی دنیا میں گانے پر جسمانی حرکات سے اداکاری کی جاتی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ مرض صرف مکاتب تک محدود نہیں بلکہ کچھ بنات کے مدارس تک بھی پہنچ گیا ہے۔
متعدد جگہ بندہ کا جانا ہوا ایک ایسے مدرسہ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جسکے ذمہ دار میوات کے مشہور عالم دین ہیں، وہاں کی تقریب میں جو کچھ راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا شاید اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہاں گویا اداکاری کے سارے ریکارڈ ہی ٹوٹ گئے، بچوں کے پروگرام کا اکثر حصہ نعت و نظم اور بے تکے مکالمات پر مشتمل تھا اور یہیں پر بس نہیں بلکہ اس جلسے میں دسیوں نعتیہ پروگرام اجتماعی (رقص نما) اداکاری پر مشتمل تھے، جبکہ اس اجلاس میں میوات کے بڑے بڑے علماء و ائمہ اسٹیج کی رونق بنے ہوئے تھے، اور سرکس کی طرح پروگرام کا انتہائ باریک پردے کے ساتھ پورا لطف لے رہے تھے۔ بالغ لڑکیوں کی شیریں و سریلی آواز سے مسلسل لطف اندوز ہورہے تھے کسی کے ماتھے پر ذرا شکن نہیں پڑ رہی تھی، یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسے پروگرام اب عام ہوچکے ہیں جن کی صدارت ہمارے صف اول کے علماء کرام فرما رہے ہوتے ہیں۔
آخر یہ تعلیم کے ساتھ ہوکیا رہا ہے ؟ کیا اسی کا نام تعلیم ہے کہ لڑکیوں کی اسلام و حجاب کے نام پر غیر محرم مردوں کے سامنے نمائش کرائی جائے انکے اعضاء مستورہ کے ابھار کو بذریعہ اداکاری، ایکشن و اشارات اجاگر کیا جائے، انکے ڈانس نما ایکسپریشن سے سامعین و ناظرین کو لطف اندوز کرایا جائے اور پھر خوب واہ واہی لوٹی جائے۔
سوال یہ ہے کہ اس رقص نما اداکاری کا ان لڑکیوں کی تعلیم و تربیت سے کیا تعلق ہے؟ انکی زندگی پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا تعلیم صرف اسی طرح کے غیر ضروری پروگراموں کا نام رہ گیا جس سے ان میں بے حیائی و بے شرمی پروان چڑھے؟
جب ہم قرآن و احادیث مبارکہ میں غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صنف نازک کے ہر معاملہ میں خصوصی آداب و احتیاط کا درس دیا گیا ہے۔ غیر محارم کے سامنے ضرورتا بولنے کا معاملہ ہو تو فرمایا *فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذي في قَلبِهِ مَرَضٌ ( تو تم بولی میں نزاکت مت اختیار کرو کہ اس سے ایسے شخص کو خیال فاسد پیدا ہونے لگے جسکے قلب میں خرابی ہے ، سورۃ الاحزاب 32 )* جب غیر محارم کے سامنے چلنے کی نوبت آجائے تو حکم ہے *وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ ( اور عورتیں اپنے پیر زور سے نہ رکھیں کہ انکا زیور معلوم ہوجائے سورۃ النور31 )*
اسی طرح نماز جو سب سے اہم عبادت ہے جسکو ہر خاتون مردوں سے بالکل الگ تھلگ ادا کرتی ہے جہاں فتنہ کا شائبہ تک نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی عورت و مرد کی نماز میں بڑا فرق رکھا گیا ہے، رفع یدین و ہاتھ باندھنے سے لیکر رکوع و سجود تک خاص طریقہ بتلایا گیا ہے جو حیا و ادب کا انتہائی اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے۔ ایام تشریق میں تکبیر تشریق اور ایام حج میں تلبیہ کو بھی آہستہ آواز سے پڑھنے کا حکم ہے۔
جبکہ وہیں دوسری طرف ہمارے مدارس و مکاتب ہیں جہاں بالغات و مراہقات کو ٹائٹ و چست نیز چمکیلے و بھڑکیلے برقعوں میں اسٹیج پر مدعو کرکے کبھی نعت و نظم ، تقاریر و مکالمے کے نام پر تو کبھی جشن آزادی و یوم جمہوریہ کے نام پر غیر ضروری و بے حیائی کو پرموٹ کرنے والے ایکشن پروگرام کرائے جاتے ہیں۔( معاذ اللہ)، اور بڑی بے حسی کے ساتھ عوام و خواص ان کے دلکش پروگراموں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جو علماء کرام قوم کے ذمہ دار ہیں وہ سبھی چپی سادھے بیٹھے رہتے ہیں۔ اپنی باری آنے پر شعلہ و شیریں تقاریر کے ذریعہ واہ واہی لوٹ کر لفافہ لیکر اپنی راہ لیتے ہیں اور ایک لفظ ان برائیوں کے خلاف نہیں بولتے۔
✦چند گزارشات ذمہ داران مکاتب و مدارس سے✦
① سب سے پہلے تو ہم اپنے طلبہ و طالبات کے مقاصد طے کریں کہ ہم انکو کونسی تعلیم دے رہے ہیں اور کیوں دے رہے ہیں؟ پھر اسکے تحت صحیح نظام و نصاب مرتب کریں پھر اس دائرے میں رہ کر کام کرتے چلے جائیں ۔
② بچیوں کے لئے نعت و نظم و دیگر پروگرام کرانا برا نہیں ہے البتہ شرعا مطلوب و محمود بھی نہیں، اگر کرنا ہے تو اس شرط کے ساتھ کہ انکے یہ پروگرام مستورات میں ہی منعقد ہوں، غیر محارم کے سامنے نہ ہوں، غیر محارم تک ان کی آواز کا پہنچنا بھی خلاف ادب ہے، انکی نعت و نظم، تقاریر و مکالموں کا میدان مستورات ہی ہوں۔
③ ایکشن ایکسپریشن سے بالکلیہ پرہیز کیا جائے، یہ ڈانس کی گویا ایک جدید شکل ہے جو بچیوں کے لئے چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی بالکل درست نہیں اور انکی حیا کے خلاف بھی ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ رقص نما اداکاری ہماری بھولی بھالی میوات میں آئی کہاں سے ہے؟ غالبا اسکا بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے جہاں اس طرح کے پروگرام موجود ہوتے ہیں جنکی نقالی میں آج کل ہم گویا مسابقہ کر رہے ہیں۔
④ ایکشن پروگراموں کی وجہ بہت سے مکاتب میں تعلیمی مقصد فوت ہوجاتا ہے مہینوں مہینوں ایک غیر ضروری پروگرام کی تیاری میں لگادئے جاتے ہیں ، ہمیں ترجیحات طے کرنی چاہئیں کہ کونسا پروگرام کس درجہ کا ہے وہ بچوں کے لئے مفید بھی ہے یا نہیں؟ بندہ کی ذاتی رائے یہ ہے کہ ایکشن پروگراموں کے بجائے بچوں کو سیرت رسول ، اسلامی تاریخ ، ملکی قوانین کو یاد کرانا چاہئیے جو ہمارے لئے مستقبل میں کام آسکیں اور حدود میں رہ کر انکے کوئز پر مبنی پروگرام کرائے جائیں ۔
دو تین دن پہلے میوات کے ہی ایک مکتب کی ویڈیو دیکھی جس میں پروگرام میں حصہ لینے والے تمام بچوں کو گنجا کراکے اور احرام بندھواکر درمیان میں کعبہ کا ڈھانچہ تیار کرکے پھر ایکشن نظم پڑھی جارہی تھی ، مجھے ترس آرہا تھا ان بچوں پر کہ ایک غیر ضروری پروگرام میں کتنا کچھ اہتمام کیا گیا ہے۔ بچوں کے مہینوں کی تیاری، کعبہ کے ڈھانچہ کی تیاری، بچوں کا گنجا کرانا، یکساں احرام باندھنا وغیرہ وغیرہ ،کیا یہ سب ضیاع وقت کے ساتھ بچوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے؟
خدارا اپنے مکاتب کو صالح مقاصد کی طرف لیکر جائیں آپ جن بچوں کو اتنی محنت کراکے اداکاری سکھاتے ہیں اتنی محنت سے بہت کچھ علمی چیزیں سکھا سکتے ہیں ۔
⑤ ایک بات اپنے ان ذمہ دار علماء سے گزارش کرتا ہوں جو عموما مکاتب و مدارس کے پروگراموں میں مدعو ہوتے ہیں وہ مکاتب و مدارس کی تعلیمی سرگرمیوں پر تعمیری و اصلاحی نقد بھی ضرور کیا کریں کمی کوتاہی پر سختی سے تنبیہ کریں تاکہ ایسے فتنے سر اٹھانے سے پہلے ہی دفن ہوجائیں ۔
⑥ آخری گزارش ان نئے نئے یوٹیوبروں سے بھی ہے کہ خدارا ویڈیو اپلوڈ کرتے وقت ذرا ٹھنڈے دماغ سے کام لیا کریں ، یہ ہنر بھی سیکھنا چاہئے کہ کونسی چیز چینل پر ڈالنی چاہئے کونسی نہیں، جو گناہ یا غیر مناسب عمل ایک تھوڑی سی تعداد کے درمیان میں ہوا اسے سوشل میڈیا پر ڈال کر متعدی نہ بنائیں ۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات