اولاد کی تربیت کے کارگر اصول

از: عبدالعلیم دیوگھری
اولاد خداوند قدوس کی بیش بہا نعمت ہے، والدین اور اولاد کا باہمی رشتہ انتہائی تقدس کا حامل ہے، اولاد والدین کے خوابوں کی تعبیر، آرزوؤں کی تکمیل، خاندانی وجاہت و وقار کا امین، ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا وارث، قلب و جگر کا سرور، نسلی امتداد کا باعث، بڑھاپے میں ان کے دستِ راست و قوتِ بازو اور ان کی شفقتوں کا مرکز اور محبتوں کی آمکاجگاہ ہوا کرتی ہے۔
قدرت طور پر والدین کے دل میں اولاد کے تئیں بےپایاں شفقت و محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور محبت کے اسی جذبۂِ بےکراں کے زیرِ اثر اولاد کی نشو و نما ہوتی ہے۔
یہ حق ہے کہ اولاد نعمت خداوندی ہے؛ تاہم قرآنی ارشاد نے اسے فتنہ یعنی آزمائش سے تعبیر کیا ہے، آزمائش بہ ایں طور ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اگر سردمہری اور غفلت شعاری سے کام لیا جائے تو یہی اولاد وبالِ جان اور موجبِ سردردی بن جاتی ہے اور ایسی اولاد سے کسی بھی قسم کا دینی و دنیوی نفع حاصل نہیں ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس فطری اور پاکیزہ رشتے کا تقدس بھی پامال ہو جاتا ہے؛ چناں چہ اس کی پاکیزگی کو سدا بہار رکھنے کے لیے دین اسلام نے نظامِ تربیت سے روشناس کرایا ہے اور بہت تاکیدی پیرائے میں اولاد کی درست نہج پر تربیت کی تلقین کی ہے۔
اولاد کی تربیت و کردار سازی میں والدین کے رویوں کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے، جس طرح اولاد کی جسمانی نشو و نما میں اس کے جینیاتی اکائیوں کا دخل ہوتا ہے اسی طرح اس کی اخلاقی و روحانی تربیت میں ماحول و معاشرہ، خانگی احوال اور والدین کے عادات و اطوار بنیادی عوامل کا کردار ادا کرتے ہیں۔
ایام طفولیت میں بچوں کا ذہن سادہ لوح ہوتا ہے جس میں تقدیر کے غیر مرئی نوشتوں کے علاوہ کوئی چیز مرقوم نہیں ہوتی، یہ والدین کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے کہ وہ اس معصوم کے ذہن کی تختی پر کس قسم کے نقوش ثبت کرنا چاہتے ہیں۔
چناں چہ اولاد کی تربیت کا پہلا مرحلہ یہی کہ والدین خود مثالی کردار و شخصیت کے حامل بنیں، یعنی اولاد کے اندر عمدہ اخلاق اور مثبت رویوں کی آبیاری کے لیے خود کی شخصیت کو اخلاقی خوبیوں سے آراستہ کریں، اور ان کے سامنے کوئی ایسا فعل نہ انجام دیں جس کے منفی اثرات ان کے اذہان میں منتقل ہوں، گھریلو ناچاقیاں، باہمی رنجش و کشیدگی اور لڑائی جھگڑے بچوں کے ذہن کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
ایام طفولیت کے بعد لڑکپن کا دور آتا ہے، بالعموم اسی دور میں اولاد بے راہ روی کی شکار ہوتی ہے؛ کیوں کہ اس عمر میں بچے جبلی طور لغویات و لہویات اور لطف اندوزی کے مواقع کی پرتجسس جستجو کرتے ہیں، یہ زمانہ بچوں کی تعلیم و تادیب کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اس دور میں بچوں کی طبعی بالیدگی کے بالمقابل ان کی ذہنی نشو نما پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے، اور ان کے اندر تعلیمی رجحان اور شوق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، نیز ان کے اذہان میں اسلامی اقدار و روایات کی اہمیت کو جاگزیں کرنا چاہیے اور روشن خیالی و ماڈرنزم کے نام پر مغربی افکار و تہذیب کو پنپنے کا موقع ہرگز نہیں فراہم کرنا چاہیے۔
اندرون خانہ درست ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بیرونی احوال کا بھی جائزہ لیا جائے، ان کے یاروں اور ان کی محافل و مجالس پر کڑی نظر رکھی جائے، کہ شریر بچوں سے دوستی یاری شرارت بدتہذیبی جیسی صفات پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔
وقت گزاری کے لیے اسمارٹ فون مہیا کرنے کی بجائے خارجی سرگرمیوں اور کھیل کود میں حصہ لینے پر زور دیا جائے، عمر کے اس مرحلے میں بچے معاشرتی تعلقات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں؛ لہذا ان کے ساتھ وقت گزاری اور دل لگی کی جائے۔
اولاد کی تربیت کے جملہ مراحل میں اس امر کا خاص خیال کیا جائے کہ ان کے نفسیاتی تقاضے ملحوظ ہوں، ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے حتی الامکان احتراز کیا جائے اور ان کی معمولی حصولیابیوں پر داد و تحسین کے کلمات کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، یہ چیزیں گو کہ بظاہر معمولی نظر آتی ہوں؛ لیکن تربیت کے باب میں یہ بنیادی فیکٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
Leave a Reply