اساتذہ کے لیے دو نصیحتیں
از: عبید انور شاہ
استاذ اور شاگرد کا رشتہ علمی، روحانی، نورانی وپاکیزہ رشتہ ہے. اس رشتے کے کچھ آداب، اخلاق، تقاضے ہیں جن کا خیال رکھنا دونوں کے لیے ضروری ہے. ہمارے مدارس میں عموماً طلبہ کو ان کی ذمہ داریاں اچھی طرح یاد دلائی جاتی ہیں. سال بھر ہونے والے مختلف جلسوں اور درسگاہوں میں اساتذہ اس موضوع پر خوب بولتے ہیں، لیکن ایک استاذ کی کیا ذمہ داری ہے اس پر بات نہیں ہوتی. حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اس تعلق سے بہت کچھ لکھا ہے. محی السنہ حضرت شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حوالے سے بہترین نصائح فرمائے ہیں. ان کا مختصر کتابچہ "آداب المعلمين” بھی "بقامت کہتر بہ قیمت بہتر” کی مثال ہے. ایک استاذ کی کیا ذمہ داری ہے اور اُس کے لیے کن کن چیزوں کا لحاظ رکھنا لازم ہے، یہ تفصیل طلب عنوان ہے اور کئی گوشوں میں پھیلا ہوا ہے. سب پہلوؤں کا احاطہ اس وقت پیش نظر نہیں، مجھے اس تحریر میں صرف دو مسئلے لکھنے ہیں، جن پر توجہ دینا حد درجہ لازم اور فرض ہے.
پہلی بات اور سب سے اہم و حساس مسئلہ طلبہ کو جسمانی سزا دینے کا ہے. تربیت کا اصل الاصول نرمی، شفقت، ہمدردی اور حسنِ سلوک ہے. لیکن کبھی کبھی تربیت کا مرحلہ دشوار ہو جاتا ہے، تنبیہ اور ہلکی پٹائی کی ضرورت پڑتی ہے. شرعاً اس کی گنجائش بھی ہے مگر بہت سے اساتذہ اس فعل میں حد سے تجاوز اور صریح ظلم کرتے ہیں. وہ طلبہ کو اس ظالمانہ طریقہ پر مارتے ہیں جس طرح کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا. دراصل یہ لوگ اپنی گھریلو الجھن، خانگی ٹینشن، اور دیگر مسائل کی کشاکش کا مداوا طلبہ پر غصہ نکال کر کرتے ہیں. گھر پر بیوی سے جھگڑا ہوا، اسے کچھ کہنے یا ہاتھ لگانے کی تو ہمت ہوتی نہیں تو درسگاہ میں آ کر معصوم طلبہ کی مار کٹائی کر دیتے ہیں. کاروبار میں نقصان کی وجہ سے دماغ گرمایا تو طلبہ پر قمچیاں توڑ کر دماغ کو ٹھنڈک پہنچائی. پٹائی میں اعتدال، ضرورت، تربیت وغیرہ چیزیں مکمل مفقود ہوتی ہیں اور سراسر ظلم و تشدد کی شکل پائی جاتی ہے. خود کو عالم کہنے والے اور قرآن و حديث کا سبق پڑھانے والے شریعت کے اصولوں کی پابندی نہیں کرتے. اس تعلق سے حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کا ملفوظ ملاحظہ فرمائیں:
"ایک کوتاہی تعزیر کے متعلق یہ ہے کہ جفاکاروں کے نزدیک اس کی کوئی حد ہی نہیں، جب تک اپنے غصہ کو سکون نہ ہوجائے سزا دیتے ہی چلے جاتے ہیں.” نیز فرمایا ”میں نے اپنے مدرسہ کے معلّموں کو بچوں کو مارنے کے لیے منع کردیا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور شفاءِ غیظ کے لیے مارتے ہیں، ایسے زدوکوب کی اگر ولی اجازت بھی دے تو بھی درست نہیں.”
تعلیم وتربیت کی غرض سے کبھی سزا دینے کی ضرورت پڑ جائے تو اس میں دسیوں شرائط کا خیال رکھنا لازم ہے. میں یہ شرائط کتبِ فتاوی سے بعینہ نقل کر دیتا ہوں:
(1) بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو.
(2) سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو.
(3) ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو. (نمبر 9، 10 اور 11 میں اس کی وضاحت آرہی ہے)
(4) غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے.
(5) بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے.
(6) مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو.
(7) ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بچہ بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو.
(8) ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے.
(9) سر، چہرے اور ستر کے حصے پر نہ مارے.
(10) بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے.
(11) ایسی سزا جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جسم پر سیاہ داغ پڑجائے، یا دل پر اس کا اثر ہو، شرعاً جائز نہیں ہے.
دوسرا مسئلہ طلبہ کو زبان سے ٹارچر اور ذلیل کرنے کا ہے. لوگ پٹائی کو جس قدر برا اور مضر سمجھتے ہیں، زبان کی مار اس سے ہزار گنا زیادہ بری اور مضر ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں. بعض اساتذہ کو اپنے منصب کا خیال ہوتا ہے، نہ عالِم ہونے کا، نہ اسلامی اخلاق کا، نہ اچھے کردار کا. وہ جب ڈانٹنے پر آتے ہیں تو زبان پر قابو نہیں رہتا. مغلظات، تحقیر آمیز جملے، فحش گالیاں جو دل میں آیا زبان سے بَک دیا. اس ظلم پر مزید ظلم یہ کہ طالب علم کے ساتھ اس کے والدین کو بھی واہی تباہی کہہ ڈالتے ہیں. "سور کی اولاد”، "الو کے پٹھے”، ڈنگر کی نسل کے” یہ ان ظالموں کے پسندیدہ جملے ہیں. غلطیوں پر ڈانٹنا اور تنبیہ کرنا ضروری ہے، ہر غلطی نظر انداز کرنے لائق نہیں ہوتی اور نہ ہر وقت نرمی کارآمد ہوتی ہے لیکن مسلسل ڈانٹنا، ہر کام میں ٹوکنا، حقارت کے ساتھ ڈانٹنا، گالیاں دینا.. یہ کھلی زیادتی اور جرم ہے. اس سے طالب علم میں ذہنی تناؤ، احساسِ کمتری، بے سکونی پیدا ہوتی ہے. اس کی شخصیت مجروح ہوتی ہے اور وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے. بعض بچے غیر معمولی حساس اور نازک مزاج ہوتے ہیں. ان کو یہ چیز پیش آئے تو ان پر زیادہ منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں، حتی کہ کئی بار خودکشی کے واقعات رونما ہوتے ہیں. بسا اوقات اس بے جا ڈانٹ ڈپٹ کا الٹا رد عمل بھی ہوتا ہے، اس کی عادت سی ہو جاتی ہے اور پھر بچہ ضد، گستاخی، بغاوت پر اتر آتا ہے. میرے علم میں ایسے واقعات ہیں کہ اساتذہ کے ظلم و تشدد اور زبانی دہشتگردی کے شکار کئی طلبہ نے صرف تعلیمی سلسلہ ہی منقطع نہیں کیا بلکہ وہ مولویت ہی سے بیزار ہو گئے. کئی بار معاملہ کی سنگینی اس درجہ پہنچتی ہے کہ مولوی بیزاری کے ساتھ مدارس بیزاری اور دین بیزاری پیدا ہو جاتی ہے. اس ہلاکت تک پہنچانے کے ذمہ دار وہ بے شعور ظالم اساتذہ ہیں جو اپنی شقاوت کے نتیجے میں معصوم اذہان میں نفرت کا بیج بوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ یہ بیج ایک تناور درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے.
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ صرف ڈانٹتے وقت زبان پر قابو رکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ نارمل گفتگو اور ہنسی مذاق کے ماحول میں بھی جملوں پر پہرا رہنا چاہیے. بعض اساتذہ بے تکلفی میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو ہرگز استاذ کے شایان شان نہیں ہوتی. ایک استاذ کے بارے میں مجھے علم ہوا کہ انہوں نے ایک طالب علم کو مذاق میں یہ جملہ کہا کہ "اس لڑکے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی اماں بھی بہت خوبصورت ہوگی!” مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں نے سر پیٹ لیا. یہ شرم و حیا، غیرت کے خلاف، ایک انتہائی گھٹیا جملہ ہے. کوئی حد سے زیادہ بے تکلف دوست بھی یہ جملہ دوسرے دوست سے نہیں کہہ سکتا. لیکن ان استاذ کو ادب، تہذیب، اخلاق، حیاء کا کوئی حصہ ہی نہیں ملا جو ایسی بات کہہ دی. اس طالب علم کے دل پر کیا گزری ہوگی، اس کے شرکاءِ درس اس کا کیسا مذاق اڑائیں گے اور اس کا اثر اس بیچارے پر کیا ہوگا، کچھ بھی تو خیال نہیں کیا.
ذمہ داران مدارس کو اس سلسلے میں اساتذہ کی تربیت کرنی چاہیے. بعض ناعاقبت اندیش افراد کی وجہ سے ایک پوری جماعت بدنام ہو اس سے بہتر ہے کہ ان افراد ہی کی معقول اصلاح و علاج کیا جائے. یوں بھی اب اس تعلق سے بڑے سخت قانون بن چکے ہیں. کیمرے کی نگاہیں ہر طرف جاسوسی کر رہی ہیں. دشمن بہانے کی تلاش میں ہے. ایسے میں بے وقوفی بھرا ایک واقعہ پورے مدرسے اور انتظامیہ کے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے.
اساتذہ کو خود ان امور کا دھیان رکھنا چاہیے اور اس حدیث کو پڑھنے پڑھانے کے ساتھ سب سے پہلے اس پر خود عمل کرنا چاہیے…
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.”
ترجمہ: (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر و ایذا رسانی) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں. [متفق عليه] [صحيح البخاري: 10]