از: محمود احمد خان دریابادی
عموما اشتہارات و پوسٹروغیرہ میں دیکھا جاتا ہے کہ بعض خواص کہ نام سے پہلے اور بعد میں بھی کئی کئی سطروں میں القاب لکھے ہوتے ہیں، دراصل یہ عجمی تہذیب ہے، ہمارے ہندوستان میں ایران سے پہونچی ہے، پہلے بادشاہوں کے لئےمبالغہ آمیز القاب کئی کئی سطروں میں لکھے جاتے تھے، آج بھی تاج محل میں شاہ جہاں کی لوح مزار پر شہنشاہ ہفت اقلیم، صاحبقراں، جنت مکاں، جیسے ڈیڑھ درجن القاب لکھے ہوئے ملیں گے ـ اسی طرح پھر اُن کے وزراء،امراء، فوجی سپہ سالار، افسران، نیز شہنشاہ کی باجگزار چھوٹی ریاستوں کے سردار، راجوں مہاراجوں کے القاب بھی ہوتے تھے، ……. ایسے ہی صوفیائے کرام اور شیوخ کے لئے قدوۃ الاصفیاء، شیخ المشائخ، سلطان العارفین وغیرہ القاب استعمال ہوئے، شعراء کے لئے طوطی ہند، ملک الشعراء، لسان الغیب جیسے القاب ایجاد ہوئے، علماء کے لئے جامع المعقول والمنقول، شیخ الاسلام والمسلمین، رئیس المحدیثن والمفسرین وغیرہ بنائے گئے ـ
پہلے کسی تحریر میں مذکورہ اشخاص کا جب ذکر کیا جاتا تو ان کے مکمل القاب وآداب کے ساتھ کرنا پڑتا، اس کے خلاف کرنا معیوب اور بد تہذیبی قرار پاتا ـ ……… ظاہر ہے ہر مرتبہ نام سے ماقبل اور مابعد تین تین سطریں لکھنے والے کےلئے بھی دشوار تھا،( کاپی پیسٹ کا زمانہ تو تھا نہیں) خود پڑھنے والا بھی اس سے اُکتا جاتا تھا، چنانچہ حل یہ نکالا گیا کہ کسی بھی شخصیت کا سادہ نام لکھ کر آخر میں ” بالقابہ ” بڑھادیا
Leave a Reply