کیا ولیمہ کے لیے مباشرت ضروری ہے؟
نکاح کی من جملہ سنتوں میں سے ولیمہ بھی ہے، احادیث مبارکہ کے اندر نکاح کے اعلان عام کی تلقین کی گئی ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
أولم ولو بشاة. (متفق علیہ)
ترجمہ: ولیمہ کرو اگر چہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو۔
اس کے علاوہ متعدد روایات ہیں جن کی روشنی میں جمہور فقہا نے ولیمہ کے مسنون ہونے کا استدلال کیا ہے۔
اللہ کے فضل سے ہمارے برصغیر میں ولیمہ کی سنت جاری ہے، لیکن چوں کہ شادی کے موقع پر دعوتوں کا عام طور پر اہتمام ہوتا ہے اس لیے ولیمے کے حوالے سے لوگوں کو کچھ اشکالات پیش آتے ہیں، ان میں ایک مشہور اشکال یہ ہے کہ کیا ولیمہ کے لیے مباشرت ضروری ہے؟
یعنی کیا ولیمہ کی سنیت ادا ہونے کے لیے میاں بیوی کا باہم صحبت کرنا ضروری ہے؟
اس حوالے سے چاروں فقہی مسالک کی رائے کیا ہے؟
اس چیز کو ہم مکمل تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
فقہ حنفی:
علمائے احناف فرماتے ہیں کہ ولیمہ کی سنیت ادا ہونے کے لیے میاں بیوی کا مباشرت کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ ان کے نزدیک ولیمہ مسنونہ کا افضل درجہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان صحبت ہو جانے کے بعد ولیمہ کیا جائے۔ چناں چہ بدائع الصنائع کے اندر موجود ہے:
لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعله بعد الدخول، وهو دليل الاستحباب لا الوجوب. (جلد 2 صفحہ 278)
یعنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دخول (مباشرت) کے بعد ولیمہ فرمایا ہے یہ دلیل ہے اس بات کی کہ (دخول کے بعد ولیمہ کے) مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ نکاح ہو گیا اور میاں بیوی کے درمیان خلوت صحیحہ پائی گئی (یعنی دونوں اس طور اکٹھے ہوئے کہ وہ چاہتے تو مباشرت کر سکتے تھے) اس کے بعد ولیمہ کر لیا تب بھی ولیمہ مسنونہ ادا ہو جائےگا۔
چناں چہ رد المحتار کے اندر ہے:
يستحب بعد الدخول، ويجوز قبله إذا حصلت الخلوة الصحيحة. (جلد 3 صفحہ 10)
یعنی مستحب یہ ہے کہ ولیمہ میاں بیوی کے درمیان مباشرت کے بعد کیا جائے؛ تاہم اگر مباشرت سے قبل خلوت صحیحہ ہو جائے تو بھی ولیمہ جائز ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ مباشرت، خلوت صحیحہ وغیرہ نہ ہوئی ہو حتی کہ رخصتی بھی نہ ہوئی ہو؛ لیکن نکاح ہو چکا ہو پھر ولیمہ کرے تو نفس ولیمہ ہو جائےگا لیکن ولیمہ مسنونہ ادا نہیں ہوگا، یعنی یہ ولیمہ سنت طریقے پر ادا ہونے والا نہیں کہلائےگا۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ نکاح ہونے سے پہلے ہی دعوت کے طور پر لوگوں کو کھلا دیا جائے تو اسے ولیمہ نہیں کہا جائے گا اور اس سے ولیمہ کی سنت بھی ادا نہیں ہوگی؛ بلکہ یہ عام دعوتوں کی طرح ایک دعوت ہوگی؛ چناں چہ فیض الباری کےا ندر ہے:
السنة في الولیمة أن تکون بعد البناء، وطعام ماقبل البناء لایقال له: ولیمة عربیة. (جلد 5 صفحہ 534)
یعنی ولیمہ میں سنت یہ ہے کہ عقد کے بعد کیا جائے؛ کیوں عقد کے بعد جو کھانا ہوتا ہے اس کو عرب میں ولیمہ نہیں کیا جاتا۔
فقہ مالکی:
مالکیہ کے نزدیک ولیمہ کا سنت طریقہ مباشرت کے بعد ہے؛ لیکن ان کے یہاں اتنی وسعت ہے کہ نکاح کے بعد کسی بھی وقت ولیمہ کیا جا سکتا ہے، چاہے خلوت صحیحہ اور رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔
چناں چہ الشرح الکبیر کے اندر موجود ہے:
الوليمة سنة وتكون بعد الدخول، وإن فعلها قبله فلا بأس. (جلد 2 صفحہ 478)
یعنی ولیمہ کرنا سنت ہے اور مباشرت کے بعد ہونا مستحب ہے، لیکن اگر مباشرت سے پہلے بھی کر لیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔
فقہ شافعی:
شوافع کے یہاں ولیمہ کا مستحب وقت مباشرت کے بعد ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہی تھا لیکن اگر نکاح ہو جانے کے بعد مباشرت، خلوت صحیحہ اور رخصتی ہونے سے پہلے بھی کر لیا جائے تو ادا ہو جائےگا، جیسا کہ مذکور ہے:
الوليمة تستحب بعد الدخول، فإن فعلها قبله جاز. (المجموع النووی جلد 9 صفحہ 225)
یعنی ولیمہ مباشرت کے بعد کرنا افضل ہے لیکن اگر پہلے کر لیا تو بھی جائز ہے۔
فقہ حنبلی:
حنابلہ کے نزدیک مباشرت کے بعد ولیمہ کرنا سنت مؤکدہ ہے، اور یہی اس کا افضل وقت ہے لیکن اگر نکاح کے فورا بعد بھی کر لے تو جائز ہے، جیسا کہ المغنی کے اندر مذکور ہے:
الوليمة سنة، والأفضل أن تكون بعد الدخول، وإن كانت قبله فلا بأس. ( جلد 7 صفحہ 1)
یعنی ولیمہ کرنا سنت ہے اور افضل یہ ہے کہ مباشرت کے بعد ہو، اور اگر پہلے کر لیا تو بھی جائز ہے۔
حاصل بحث:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ چاروں فقہی مذاہب میں ولیمہ کا افضل اور مسنون طریقہ مباشرت کے بعد ہے، لیکن فقہ حنفی کے علاوہ باقی تینوں کے نزدیک نکاح کے بعد مباشرت اور خلوت صحیحہ سے پہلے بھی ولیمہ مسنونہ ادا ہو جائےگا، لیکن علمائے احناف کے نزدیک ولیمہ مسنونہ کے ادا ہونے کے لیے کم از کم خلوت صحیحہ ہونی چاہیے اگر خلوت صحیحہ نہیں ہوگی تو ولیمہ ادا تو ہو جائےگا لیکن مسنونہ نہیں ہوگا، اور نکاح ہونے سے پہلے جو کھانا کھلایا جائے گا وہ کسی کے نزدیک بھی ولیمہ شمار نہیں ہوگا۔
Leave a Reply